کرونا وائرس نے بھارت کی معیشت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ مالی سال 21-2020 میں بھارت کی شرح نمو منفی سات اعشاریہ تین فی صد رہی جو گزشتہ چار دہائیوں کی بدترین شرح ہے۔
سرکاری ادارے نیشنل اسٹیٹسٹکل آفس (این ایس او) نے پیر کو اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 21-2020 کی چوتھی سہ ماہی (جنوری تا مارچ) کے دوران اقتصادی شرح نمو میں ایک اعشاریہ چھ فی صد کا اضافہ ہوا۔ البتہ پورے مالی سال کے دوران ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں منفی سات اعشاریہ تین فی صد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
جنوری تا مارچ 2021 کے دوران شرح نمو گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں صفر اعشاریہ پانچ فی صد بہتر رہی ہے۔
ماہرین کے مطابق چوتھی سہ ماہی میں 1.6 فی صد کی شرح نمو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملکی معیشت بہتر نہیں ہے اور اگر اسے جلد بہتری کی جانب نہیں لے جایا گیا تو اس میں مزید ابتری آ سکتی ہے۔
بنگلور کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ایک مطالعے کے مطابق گزشتہ برس کرونا کی پہلی لہر کے دوران 23 کروڑ بھارتی شہری غربت میں چلے گئے تھے۔ مطالعے نے 375 روپے یومیہ سے کم میں زندگی گزارنے والوں کو غریب مانا ہے۔
بھارتی معیشت کی نگرانی کرنے والے ادارے ’سینٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکانومی‘ کے مطابق کرونا کی دوسری لہر کے دوران نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے 73 لاکھ افراد نے صرف اپریل میں اپنا روزگار گنوا دیا۔
بھارت میں کرونا کی دوسری لہر میں آٹھ ہفتوں کے دوران ایک لاکھ 60 ہزار افراد وبا سے ہلاک ہوئے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق غیر منظم شعبے کے 90 فی صد کارکنوں کو حکومت کا کوئی مالیاتی تحفظ حاصل نہیں ہے اور لاکھوں افراد حکومت کے راشن کے حق دار نہیں ہیں۔
'حکومت نے اقتصادی پیکج کا اعلان نہیں کیا'
ملکی معیشت میں اتنی ابتر صورتِ حال کے باوجود نریندر مودی کی حکومت نے معیشت کو سنبھالنے کے لیے تاحال کسی اقتصادی پیکج کا اعلان نہیں کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال پورے ملک میں لاک ڈاؤن کیا گیا تھا جس کی وجہ سے کروڑوں افراد بے روزگار ہوئے تھے اور معیشت کو بڑا دھچکہ لگا تھا تو حکومت نے 20 لاکھ کروڑ روپے کے اقتصادی پیکج کا اعلان کیا تھا۔
وزارتِ تجارت نے پیر کو اپریل کے لیے آٹھ اہم صنعتوں کے پیداواری اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نئے مالی سال میں یہ اقتصادی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ صنعتوں کی پیداوار میں منفی 15.1 فی صد تک گراوٹ آئی ہے۔
دریں اثنا اسٹیٹ بینک آف انڈیا کے معاشی ماہرین نے نئے مالی سال 22-2021 کے لیے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 10.4 فی صد کی شرح نمو کے اندازے کو کم کر 7.3 فی صد کر دیا ہے۔
اہم سرکاری بینکوں کے ماہرین کے مطابق معیشت میں ابتری کی وجہ کرونا کی دوسری لہر ہے۔ شہری اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں صورت حال بہت خراب رہے گی۔
حکومت کے اقدامات پر متعدد ماہرینِ معیشت نے تنقید کی ہے۔ نوبیل امن انعام یافتہ ماہر معیشت ایستھر ڈوفلو اور ابھیجیت بنرجی نے حکومت کی جانب سے غریبوں کو براہِ راست کیش ٹرانسفر نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔
برطانیہ کی ایک مالیاتی فرم ’برکلیز‘ نے اندازہ لگایا ہے کہ کرونا کی دوسری لہر کی وجہ سے بھارت کی معیشت کو 74 ارب ڈالر یا مجموعی قومی پیداوار کا 2.4 فی صد کا نقصان ہو سکتا ہے۔
حزبِ اختلاف کی حکومت پر تنقید
حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے گزشتہ سات برس کے طرزِ حکومت اور خاص طور پر اقتصادی بحران کے حوالے سے کہا ہے کہ اس سے ملک میں بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے جو کہ غریبوں کی زندگی پر ایک کاری ضرب ہے۔
کانگریس کے ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ویڈیو بیان میں حکومت پر الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان برسوں میں ملک کی معیشت بری طرح تباہ ہوئی ہے۔
سابق مرکزی وزیرِ خزانہ اور کانگریس کے سینئر قومی ترجمان پی چدمبرم نے منگل کو ایک پرس کانفرنس میں کہا تھا کہ گزشتہ 40 برس میں یہ پہلا موقع ہے جب اقتصادی شرح نمو یا جی ڈی پی منفی میں گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 80-1979 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے جب بھارت کی معیشت کی شرح نمو منفی ہے۔
پی چدمبرم نے مزید کہا کہ پہلے ہی حکومت سے اپیل کی گئی تھی کہ سرکاری خرچ بڑھایا جائے۔ غریبوں کے اکاؤنٹس میں پیسے پہنچائے جائیں۔ انہیں مفت راشن دیا جائے۔ لیکن حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
سابق وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی ناقص اقتصادی پالیسی کی وجہ سے گزشتہ دو برس میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ لوگ غریب ہوئے ہیں۔
انہوں نے ملک کو موجودہ اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے حکومت کو نئے نوٹ چھاپنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔
’معیشت کی منفی شرح نمو خلاف توقع نہیں ہے‘
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں معلم اور ماہرِ معیشت پروفیسر پروین کمار جھا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت ملک کی معیشت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ معیشت کی موجودہ منفی شرح نمو خلاف توقع نہیں ہے۔ متعدد ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار درست نہیں ہیں۔
ان کے مطابق شرح نمو کا اندازہ لگانے کا موجودہ حکومت کا جو طریقہ کار ہے وہ غلط ہے۔ کیوں کہ غیر منظم شعبے کا اندازہ کافی کمزور طریقے سے کیا جا رہا ہے۔ ان کے خیال میں صورتِ حال کی سنگینی اس سے کہیں زیادہ ہے۔
’حکومت نے اقتصادی ماہرین کے مشوروں کو نظرانداز کیا‘
پروفیسر پروین کمار جھا نے نے کہا کہ اقتصادی پالیسی وضع کرنے والوں نے ماہرین کے متعدد مشوروں کو پوری طرح نظر انداز کیا۔
ان کے خیال میں پوری دنیا میں معیشت کو درست کرنے کے لیے غریبوں کے اکاؤنٹس میں پیسے منتقل کیے گئے۔ لیکن بھارت میں ایسا نہیں ہوا۔ جب کہ ماہرین نے مشورہ دیا تھا کہ غریبوں کو ماہانہ پانچ سے آٹھ ہزار روپے تین ماہ یا چھ ماہ تک دیے جائیں۔
پروفیسر پروین جھا نے یہ بھی کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی چیف اکانومسٹ گیتا گوپی ناتھ نے گزشتہ سال بھارت کے دورے کے موقع پر کہا تھا کہ اگر بھارت 2026 تک بھی 20-2019 کی شرح نمو تک پہنچ جائے تو غنیمت ہے۔ ورنہ یہ صورتِ حال آگے تک برقرار رہ سکتی ہے۔
ان کے مطابق یہ ایک نازک صورتِ حال ہے اور اس کا اثر سیاست پر پڑنا چاہیے۔ لیکن ان کے بقول حکومت نے عوام کی توجہ مذہب اور ہندوتوا کی طرف مبذول کر دی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شمالی بھارت کی سیاست پر اس کا کچھ اثر تو پڑے گا لیکن جب تک حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں ساتھ آ کر عوام کو حکومت کی اس ناکامی کے بارے میں نہیں بتاتیں۔ اس وقت تک کوئی بہت زیادہ اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔
’صورتِ حال کا آنے والی سیاست پر اثر پڑے گا‘
ایک اور مبصر آلوک موہن کا کہنا ہے کہ مندی کی اصل وجہ حکومت کی غلط اقتصادی پالیسی ہے۔ معیشت میں جو گراوٹ آئی ہے اس سے نہ صرف یہ کہ آنے والے ایام میں مہنگائی اور افراطِ زر میں مزید اضافہ ہو گا۔ بلکہ دنیا بھر میں بھارت کی معیشت پر سوالات بھی اٹھائے جائیں گے۔
ان کے مطابق حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی اقتصادی پالیسی میں ترمیم کرے اور ان حکام کے خلاف کارروائی کی جائے جو حکومت کو تاریکی میں رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال کا آنے والی سیاست پر اثر پڑے گا۔ لوگ اعداد و شمار پر کم بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان کی جیب میں کتنا پیسہ ہے اور انہیں گھریلو اخراجات پر کتنے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں جہاں انتخابات ہوں گے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو نقصان ہوگا۔
ان کے بقول اگر حالات میں بہتری نہیں آتی۔ تو اسمبلی انتخابات کے علاوہ 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔
’حالات میں بہتری واقع ہوئی ہے‘
ادھر حکومت کے اعلیٰ اقتصادی مشیر کے وی سبرامنین نے کہا کہ کرونا کی دوسری لہر کا ملکی معیشت پر بہت زیادہ اثر پڑنے کا امکان کم ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ آگے جا کر شرح نمو کی رفتار تیز کرنے کے لیے مالی معاونت کی ضرورت ہوگی۔
ان کے خیال میں یہ قیاس آرائی کرنا مشکل ہے کہ کیا رواں مالی سال کے لیے دوہرے شرح نمو کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے مقامی اور ریاستی سطح پر لاک ڈاؤن کی وجہ سے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو میں کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دوسری لہر کی پیش گوئی وبائی امراض کے ماہرین نے بھی نہیں کی تھی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مالی سال 21-2020 کی پہلی سہ ماہی میں شرح نمو میں 24.4 فی صد کی گراوٹ تھی۔ اب 21-2020 میں منفی شرح نمو مائنس سات اعشاریہ تین فی صد ہے۔ حالاں کہ فروری میں مائنس آٹھ فی صد کا اندازہ لگایا گیا تھا۔ اس کا مطلب بقول ان کے حالات میں بہتری واقع ہوئی ہے۔