برطانیہ کے براڈ کاسٹنگ ادارے بی بی سی کو اپنے ہی ملک میں 1995 میں لیڈی ڈیانا کے انٹرویو کے سلسلے میں ایک سخت رپورٹ کے حوالے سے تنقید کا سامنا ہے۔
ایک نئی تفتیش میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بی بی سی کے ایک صحافی نے لیڈی ڈیانا کے بارے میں انٹرویو حاصل کرنے کے لیے ’’دھوکہ دہی‘‘ کا سہارا لیا اور ادارے نے 25 برس پہلے ہونے والے اس واقعے کی پردہ پوشی کی۔
یاد رہے کہ اس انٹرویو کے بارے میں نئے سرے سے تحقیقات کی شروعات لیڈی ڈیانا کے بھائی چارلز سپینسر کے اس الزام پر شروع کی گئی تھیں کہ بی بی سی کے صحافی مارٹن بشیر نے جعلی دستاویزات اور بددیانتی کے ذریعے لیڈی ڈیانا کو انہیں انٹرویو دینے کے لیے قائل کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بی بی سی نے اس انٹرویو کے متعلق جج جان ڈائسن کی سربراہی میں ایک نئی تفتیش شروع تھی جس کے 126 صفحات پر مبنی نتائج جمعرات کے روز شائع کئے گئے ہیں۔
برطانیہ کے جسٹس سیکرٹری رابرٹ بک لینڈ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’لارڈ ڈائسن کی رپورٹ سے ثابت ہوا ہے کہ ایسا کرنے کا فیصلہ نہ صرف رپورٹر یا اس کی پروڈکشن ٹیم کا تھا، بلکہ بی بی سی کی انتظامیہ میں اعلیٰ سطح پر ایسے فیصلے کیے گئے، جو غلط تھے۔‘‘
بقول ان کے ’’ ان انکشافات کی روشنی میں اب حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ بی بی سی کے انتظامی معاملات میں اصلاحات کی ضرورت ہے کہ نہیں۔‘‘
برطانوی شہزادے، ولیم اور ہیری نے، جو لیڈی ڈیانا کے بیٹے ہیں، جمعرات کے روز بی بی سی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس انٹرویو اور دو برس کے بعد ان کی والدہ کے ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہونے کے مابین ایک براہ راست تعلق ہے۔ کیونکہ حادثے کے وقت وہ اور ان کے ساتھی کا پیچھا پاپارازی کر رہے تھے۔ (پاپارزی سے مراد ایسے فری لانس فوٹو گرافرز کا گروپ ہے جو مشہور شخصیات کی تصاویر بنانے کے لیے سرگرداں رہتے ہیں)۔
ڈائسن کی رپورٹ سے قبل بھی وزیراعظم بورس جانسن کی کنزرویٹو پارٹی کے کئی ممبران نے بی بی سی پر اس کے مبینہ لبرل تعصب کی بنیاد پر تنقید کی تھی۔
وزیراعظم بورس جانسن نے اس رپورٹ کے بارے میں کہا کہ انہیں اس پر تشویش ہے اور انہیں امید ہے کہ نشریاتی ادارہ آئندہ ایسا واقعہ نہیں ہونے دے گا۔
اس سکینڈل کی بنیاد ان دستاویزات پر ہے جو بینک کی کچھ سٹیٹمنٹس پر مبنی ہیں، جن سے یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ لیڈی ڈیانا کے قریبی افراد کو ان کی جاسوسی کرنے پر رقم دی جا رہی تھی۔
ڈیانا کے بھائی سپینسر نے الزام لگایا تھا کہ مارٹن بشیر نے ان دستاویزات کو دکھا کر ڈیانا کا اعتبار حاصل کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ مارٹن بشیر نے ڈیانا کو شاہی خاندان سے متعلق خود ساختہ کہانیاں سنائیں تاکہ ڈیانا کا یہ شک یقین میں بدل جائے کہ ان کے خلاف شاہی خاندان سازش کر رہا تھا۔
اس وقت کے گرافک ڈیزائنر میٹ ویزلر نے، جنہیں مارٹن بشیر نے یہ جعلی دستاویزات بنانے کا کام دیا تھا، جب یہ انٹرویو دیکھا تو انہیں ان دو عوامل کے درمیان ایک تعلق نظر آیا۔ انہوں نے فوری طور پر بی بی سی کی انتظامیہ کو اس بارے میں مطلع کیا تھا مگر بقول ان کے بی بی سی نے نظر انداز کر دیا۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں طویل جنگ لڑی کہ ان کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بی بی سی میں یہ روایت ہے کہ معمولی لوگوں کو جواب ہی نہ دیا جائے۔ ان کے بقول جب بی بی سی نے انہیں بلیک لسٹ کیا تھا تو ان کے کاروبار کو نقصان پہنچا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق انہوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم سے شدید دباؤ میں ہی معافی مانگی جاتی ہے‘‘۔
ایسے میں جب اس خبر پر آوازیں اٹھ رہی ہیں، بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے کہا ہے کہ براڈکاسٹر کو اس بارے میں جاننے کے لیے تہہ تک جانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی کہ اس وقت کیا ہوا تھا اور یہ جو کچھ انہیں معلوم تھا، اس بارے میں زیادہ شفاف ہونے کی ضرورت تھی۔
بی بی سی کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچیس سال پہلے کی نسبت آج ضابطے بہت سخت ہو چکے ہیں۔ اب ہمارے پاس انڈسٹری کی قیادت کرنے والی ’’ وسل بلوئنگ سکیم‘‘ موجود ہے جو خدشات اور تشویش کے اظہار کے لیے واضح اور آزاد راستے فراہم کرتی ہے۔ بی بی سی کے بقول آج حالات ماضی کے مقابلے میں بہت مختلف ہیں۔
یاد رہے کہ اس انٹرویو میں، جو مارٹن بشیر کے لیے ایک بڑا ’’سکوپ‘‘ سمجھا جاتا تھا، لیڈی ڈیانا نے پرنس چارلس کے ان کی اس وقت اہلیہ، کامیلا پارکر باؤلز کے ساتھ معاشقے کے بارے میں کہا تھا کہ ان کی شادی کے ’’اس رشتے میں بیک وقت تین افراد موجود تھے۔‘‘
لیڈی ڈیانا کے اس انٹرویو کو اس وقت کروڑوں لوگوں نے دیکھا تھا جس میں انہوں نے شہزادے چارلس کے ساتھ ان کی شادی کے ٹوٹنے کی وجوہات بیان کیں تھیں۔