امریکی سینیٹ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا ٹرائل جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ ٹرمپ پر چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملے کے لیے اپنے حامیوں کو اکسانے کا الزام ہے۔
سابق صدر کے خلاف سینیٹ میں ٹرائل شروع کرنے کی آئینی حیثیت پر منگل کو چار گھنٹے تک بحث ہوئی۔ ایوانِ نمائندگان کی پراسیکیوشن ٹیم کے نو ارکان نے ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کے حق میں دلائل دیے۔
ایوان کے ڈیمو کریٹک ارکان نے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے سینیٹ کو کانگریس پر حملے کی ایک ویڈیو بھی دکھائی۔ بعد ازاں سابق صدر کے وکلا نے مقدمہ چلانے کی مخالفت میں اپنے دلائل پیش کیے۔
بعدازاں ٹرمپ کے مواخذے کی منظوری یا اسے مسترد کرنے کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کے دوران 56 ارکان نے مواخذے کا ٹرائل جاری رکھنے کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 44 نے اس کی مخالفت کی۔
سو ارکان پر مشتمل سینیٹ میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ری پبلکن پارٹی کے ارکان کی تعداد 50، 50 ہے۔ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی جاری رکھنے کے حق میں ووٹ دینے والوں میں ری پبلکن پارٹی کے چھ ارکان بھی شامل ہیں۔
ایوانِ نمائندگان کے ڈیموکریٹک پراسیکیوشن ٹیم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے آخری ہفتوں میں اُن کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
دوسری جانب ٹرمپ کی طرف سے پیش ہونے والے دو وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ آئین میں تحریر ہے کہ مواخذے کو بطور آلہ صرف اُس وقت استعمال کیا جا سکتا ہے جب صدر کو عہدے سے سبکدوش کرنا مقصود ہو۔ ان کے بقول ڈونلڈ ٹرمپ کی چار سالہ مدت مکمل ہو چکی ہے اور وہ اب ملک کے صدر نہیں جب کہ 20 جنوری کو جو بائیڈن بھی اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔
ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کے ایک پراسیکیوٹر جیمی راسکن نے اپنے دلائل میں کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کا احتساب نہ ہوا تو مستقبل میں آنے والے صدور اپنی مدتِ صدارت کے آخری ایام میں کیے جانے والے غلط اقدامات پر نتائج کا سامنا کرنے سے مستثنیٰ ہو جائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہیں دوسری بار مواخذے کا سامنا ہے۔ اس مرتبہ اُن کا مواخذہ ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب وہ منصبِ صدارت پر موجود نہیں۔
اس سے قبل 2016 کے صدارتی انتخابات میں یوکرین سے متعلق کانگریس کی تحقیقات روکنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق الزامات پر 2019 میں ٹرمپ کا مواخذہ کیا گیا تھا۔ لیکن امریکی سینیٹ نے گزشتہ سال کے آغاز میں اُنہیں الزامات سے بری کر دیا تھا۔
مواخذے کی کارروائی میں آگے کیا ہو گا؟
سینیٹ میں مواخذے کی کامیابی کے لیے ایوان کے دو تہائی اراکین کا اس کے حق میں رائے دینا ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 100 رکنی سینیٹ کے کم از کم 67 ارکان کو مواخذے کی حمایت کرنا ہوگی جو کہ ممکن نظر نہیں آتا۔
اس لیے ماہرین کا خیال ہے کہ سینیٹ ٹرائل میں اس بار بھی سابق صدر ٹرمپ مجرم قرار نہیں پائیں گے۔ البتہ سینیٹ میں سادہ اکثریت رکھنے والی ڈیموکریٹک پارٹی کی کوشش ہے کہ مواخذے کے لیے زیادہ سے زیادہ ری پبلکن ارکان کی حمایت حاصل کی جائے۔
سابق صدر ٹرمپ کے وکلا کا اصرار ہے کہ اب اُن کے مؤکل کا مواخذہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ وہ اب عہدے پر نہیں رہے بلکہ ایک عام شہری ہیں۔
ٹرمپ کے وکلا کا کہنا ہے کہ سابق صدر نے اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملے کے لیے نہیں اُکسایا تھا بلکہ اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ انتخابی نتائج بدلنے کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
اب جب ٹرمپ صدر نہیں رہے تو مواخذہ کیوں ہو رہا ہے؟
امریکی آئین کے تحت کیے جانے والے مواخذے کا بنیادی مقصد کسی سرکاری عہدے دار کو کسی جرم کی پاداش میں معزول کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے ری پبلکن پارٹی کے اراکین اور ٹرمپ کے وکلا کا یہ مؤقف ہے کہ مواخذے کی یہ کارروائی غیر آئینی ہے کیوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب صدر کے منصب پر فائز نہیں۔ لہذا انہیں عہدے سے ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
لیکن ڈیموکریٹس اس معاملے پر ان آئینی ماہرین کی رائے کا حوالہ دیتے ہیں جن کے خیال میں کسی سابق عہدے دار کا مواخذہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ کے خلاف اس مواخذے کے دوران امریکہ کے سابق وزیرِ جنگ ولیم بیلنیپ کے مواخذے کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے جنہوں نے 1876 میں مواخذے کی کارروائی شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔ اُن پر رشوت خوری کا الزام تھا۔
ولیم بیلنیپ کے استعفے کے باوجود سینیٹ نے اُن کا ٹرائل مکمل کیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں اس ٹرائل کے نتیجے میں الزامات سے بری کردیا گیا تھا۔
ڈیموکریٹس کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ اس لیے بھی آئینی ہے کیوں کہ ایوانِ نمائندگان نے اُن کے مواخذے کی منظوری اس وقت دی تھی جب وہ صدر تھے اور اس مواخذے کی منظوری کے سات روز بعد ان کے عہدے کی مدت ختم ہوئی تھی۔