افغانستان کی تعمیر نو پر نظر رکھنے والی امریکی حکومتی تنطیم نے ملک میں قیامِ امن کے امکانات پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کی حمایت سے جاری کی جانے والی افغان حکومت اور طالبان کےدرمیان مصالحت آگے بڑھتی دکھائی نہیں رہی۔
تنظیم " یو ایس اسپیکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن"، نے، جسے سیگار کے نام سے جانا جاتا ہے، پیر کے روز اپنا ایک بے باک تجزیہ پیش کیا۔ اس تجزیہ میں سیگار نے متنبہ کیا ہے کہ گزشتہ سال امریکہ اور طالبان کے درمیان امریکی افواج کے انخلا سے متعلق معاہدے اور اس کے بعد طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کے کوئی خاط خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
سپیشل انسپیکٹر جنرل جان سوپکو نے اپنی تازہ سہ ماہی رپورٹ میں لکھا ہے کہ افغانستان میں حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی جنگ بندی معاہدہ نہیں ہوا اور سینئر امریکی اور عالمی عہدیداروں کی اپیلوں کے باوجود، اس سہ ماہی میں افغانستان میں باغیانہ سرگرمیاں اور شدت پسند تشدد جاری رہا۔
یہ پچاسویں سہ ماہی رپورٹ امریکی قانون سازوں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ابھی تک یہ بھی ثابت نہیں ہوا کہ طالبان نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والےٕ دہشت گردوں سے اپنے تعلقات منقطع کر لئے ہیں۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت، امریکی اور نیٹو فورسز کو اس سال مئی تک افغانستان سے نکل آنا تھا، جس کے عوض، طالبان دہشت گرد کاروائیوں سے باز رہنے کی یقین دہانیاں اور افغان حکومت کے ساتھ کسی سیاسی حل کیلئے مذاکرات کا اعادہ شامل تھا، تا کہ دو عشروں سے جاری افغان جنگ کو مستقل بنیادوں پر ختم کیا جا سکے۔
تاہم اس معاہدے کے باوجود، طالبان کی جانب سے امریکہ کو دی گئی گارنٹیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے اُن کی نیت اور خواہش پر امریکی فوج کے عہدیدار بارہا اپنے شکوک کا اظہار کر چکے ہیں۔ نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیگر شعبوں میں پیش رفت بھی سستی کا شکار رہی ہے۔
امریکی فوج اور نیٹو مشن کے ڈیٹا پر مبنی ، سیگار کی رپورٹ میں سن 2020 کے آخری تین مہینوں میں ملک کے زیادہ تر حصوں میں لڑائی میں شدت کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان کے چند علاقوں میں یہ رجحان زیادہ تشویشناک تھا۔
افغانستان میں امریکی فورسز نے سیگار کو بتایا کہ اس سہ ماہی میں کابل پر ہونے والے حملے، گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔
سیگار کی ویپ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب افغانستان کے بارے میں بین الاقوامی خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
افغانستان کیلئے یورپی یونین کے وفد نے نیٹو یعنی امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کے ہمراہ پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں قتل و غارت گری، اغوا، اہم بنیادی ڈھانچے کی تباہی کی سخت مذمت کی ہے۔
تاہم طالبان نے پیر کے روز، ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بے بنیاد ہیں۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ افغانستان کے طالبان کا عام شہریوں کی ہلاکتوں میں کوئی ہاتھ نہیں ہے اور نہ ہی وہ بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے میں ملوث ہے۔ بیان میں مجاہد نے اس کا الزام غیر ممالک پر عائد کیا ہے۔
گزشتہ جمعہ کو ، افغان صدر اشرف غنی نے ایک ورچوئل فورم میں کہا تھا کہ یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے طالبان بات چیت کو وقت حاصل کرنے کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے طالبان کو خبردار کیا کہ طالبان ملاقات سے اجنتاب برتنے کیلئے ایک کے بعد دوسرا بہانہ تراشتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تشدد میں شدت آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تشدد کے ذریعے غالب آئیں گے تو پھر انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔
نئے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ ایسے خدشات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
صدر بائیڈن کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سولیوان نے بھی ورچوئل فورم میں کہا کہ امریکہ بغور دیکھ رہا ہے کہ طالبان کس حد تک وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس تناظر میں امریکہ اپنی فوج اور سفارتی حکمت عملی کے حوالے سے فیصلے کرے گا۔