ترکی میں جمعرات سے سوشل میڈیا سے متعلق نئے قوانین کا نفاذ ہو گیا ہے جس کے ساتھ ہی ملک میں فیس بک اور ٹوئٹر کے بند ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
رواں برس جولائی میں منظور ہونے والے قانون کے تحت ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جن کے صارفین کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے، اُنہیں ترکی میں لازمی دفاتر کھولنا ہوں گے۔
دفاتر نہ کھولنے والے سوشل پلیٹ فارم کو اشتہارات پر پابندی، چار کروڑ لیرا جرمانہ اور بینڈ وتھ میں 90 فی صد کمی کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے یہ پلیٹ فارمز استعمال کے قابل نہیں رہیں گے۔
نئے قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں مقامی عدالتوں کے فیصلے کے تحت متنازع مواد کو 48 گھنٹوں میں ہٹانے کی پابند ہوں گی۔
جمعرات سے ترکی میں نافذالعمل قانون کے تحت سوشل میڈیا کمپنیوں کو صارفین کا ڈیٹا مقامی طور پر اسٹور کرنے کے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔
ترکی میں متعدد ویب سائٹس اور مواد پر پہلے ہی جزوی پابندی عائد ہے۔
ٹوئٹر نے گزشتہ برس ترکی، جاپان اور روس کو ایسے ممالک قرار دیا تھا جہاں سے سب سے زیادہ پوسٹس ہٹائے جانے کی درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے ترکی میں نئے قوانین کی پاسداری سے متعلق جاننے کے لیے ٹوئٹر اور فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ تاہم دونوں پلیٹ فارمز نے اس بارے میں تبصرے سے گریز کیا۔
ترکی میں سوشل میڈیا پابندیوں پر ٹوئٹ کرتے ہوئے فیس بک ہیومن رائٹس آفیسر این لیون نے کہا ہے کہ ترکی کے نئے سوشل میڈیا قوانین سے انسانی حقوق کے بارے میں تحفظات پیدا ہوئے ہیں اور ترکی کا یہ غیر معمولی اقدام ہے۔
رازداری حقوق کے علم بردار سیوکٹ یونک نے کہا ہے کہ ترکی نے 2019 میں چار لاکھ آٹھ ہزار ویب سائٹس، 40 ہزار ٹوئٹس، 10 ہزار یوٹیوب ویڈیوز اور 6200 فیس بک پوسٹ کو بلاک کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر پابندی پہلے ہی سے اتنی سخت تھیں تو تصور کریں یکم نومبر کو نئے قانون کے نفاذ کے بعد اس کی کیا صورتِ حال ہو گی۔
سوشل میڈیا سے متعلق نئے قوانین صدر رجب طیب ایردوان کی حکمراں جماعت 'اے کے پی' نے پارلیمنٹ میں پیش کیے تھے۔ ترکی کی حکومت نے اپوزیشن کے حامی اخبارات اور ٹی وی چینلز کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا ہے۔
ٹوئٹر پر ایک کروڑ سات لاکھ فالوورز رکھنے والے ترک صدر طیب ایردوان نے سوشل میڈیا کے بارے میں اپنی ناپسندگی کا ہمیشہ کھل کر اظہار کیا ہے۔
انہوں نے 2014 میں تمام پلیٹ فارمز کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی اور الیکشن سے قبل کچھ وقت کے لیے ٹوئٹر اور یوٹیوب بند کر دیے تھے۔