لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے کالعدم جماعت الدعوة کے چار اہم رہنماؤں کو دہشت گروں کی مالی معاونت کے الزام میں پانچ، پانچ سال قید اور جرمانے کی سزائیں سنا دیں۔
جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت نمبر تین کے جج نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ سناتے ہوئے کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے چار اہم رہنماؤں عبد الرحمان مکی، یحیی عزیز، عبدالاسلام اور ملک ظفر کے خلاف فیصلہ سنایا۔
فیصلے کے مطابق یحیی عزیز اور ملک ظفر اقبال کو پانچ، پانچ سال قید اور فی کس پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ دیگر دو ملزمان عبدالسلام اور عبدالرحمان مکی کو ایک، ایک سال قید اور 20 ہزار جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ چاروں ملزمان جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
فیصلے کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کے اسپیشل پراسیکیوٹر عبدالرؤف وٹو نے بتایا کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران مجموعی طور پر پراسیکیوشن کے نو گواہوں نے اپنے مکمل بیانات قلمبند کرائے۔
تمام گواہوں نے جماعت الدعوة کے چاروں ارکان کے خلاف گواہی دی جن کے نام نہیں بتائے جا سکتے۔ اسپیشل پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عدالت نے ملزمان کے بیانات قلمبند کرنے اور حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا ہے۔
عبدالرؤف وٹو نے مزید بتایا کہ جماعت الدعوة کے چاروں ارکان کو اقوامِ متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔ یہ تمام افراد انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل کر سکتے ہیں۔
اسپیشل پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ دہشت گردوں کی مالی معاونت سے بنائی گئی جائیداد کو بھی ضبط کر لیا جائے۔
عبدالرؤف وٹو نے بتایا کہ الانفال ٹرسٹ کالعدم لشکر طیبہ کا ذیلی ادارہ تھا اور کالعدم تنظیم کے طور پر کام کر رہا تھا۔ اِنہوں نے جامعہ ستاریہ کے نام سے ضلع اوکاڑہ کی تحصیل دیپالپور میں ایک مدرسہ بنایا تھا۔ یہ مدرسہ ٹیرر فنانسنگ (دہشت گردوں کی مالی معاونت) کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ اسی الزام میں آج عدالت نے فیصلہ سنایا ہے۔
وکیل صفائی نصیرالدین خان نے بتایا کہ الانفال ٹرسٹ صرف رفاعی کام کرتا تھا۔ لہذٰا اس کے دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایک اور کیس میں انسداد دہشت گردی فیصل آباد کی عدالت نے بدھ کو کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے دیگر چار ارکان محمد اویس، عظمت اللہ، محمد افضل اور بنیامین کو ایک ایک سال قید کی سزا سنائی تھی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق چاروں ملزمان کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کے لیے رقوم اکٹھی کرتے تھے جو دہشت گردوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال ہوتی تھی۔
تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری سمجھتے ہیں کہ ایسے تمام کیسوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیوں کہ اِن کی پیروی حکومت خود کرتی ہے۔
اُن کے بقول اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی ریاست کی پالیسی گزشتہ دو سالوں سے تبدیل ہوئی ہے اور ایسے تمام کیسز اِن سب کا واضح ثبوت ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ پاکستانی ریاست خود کو ایسے تمام گروپوں اور تنظیموں سے فاصلے پر رکھ رہی ہے بلکہ اِن کی حوصلہ شکنی بھی کر رہی ہے۔
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ اگر کسی کو بچانا مقصود ہو تو حکومت پراسیکیوشن کو کمزور کر سکتی ہے۔ اگر کمزور کیس بنے تو عدالت سزا دے ہی نہیں سکے گی۔ حسن عسکری کہتے ہیں کہ بھارت اکثر و بیشتر یہ پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے کہ پاکستان دراندازی کرتا ہے، لہذٰا ایسے فیصلوں سے عالمی سطح پر یہ تاثر جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ کسی زمانے میں ایسی تنظیموں کی مدد بھی کی گئی۔ اس وقت رائے یہ تھی کہ اس میں فائدہ ہے، لیکن اب ریاستی بیانیہ تبدیل ہوا ہے۔
وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں جماعت الدعوة کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اِس کیس کے حوالے سے اپنا کوئی موقف نہیں دیا۔
خیال رہے کہ رواں سال فروری میں لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے دو مختلف مقدمات میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کو مجموعی طور پر 11 سال قید اور 30 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
حافظ سعید کو انسداد دہشت گردی کی دفعہ 11 ایف (2) کے تحت کالعدم تنظیم کا رُکن ہونے، اس کی حمایت کرنے کے الزام میں ساڑھے پانچ سال قید اور 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
حافظ سعید کے خلاف قائم دوسرے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کے ایکٹ 11 این، ایچ اور کے کے تحت چندہ جمع کرنے اور منی لانڈرنگ کے الزام میں بھی ساڑھے پانچ سال قید اور 15 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی پنجاب نے جماعت الدعوۃ کے مذکورہ چاروں مرکزی رہنماؤں کو گزشتہ سال جولائی میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ سی ٹی ڈی نے کالعدم جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید اور نائب امیر عبدالرحمان مکی سمیت 13 مختلف رہنماؤں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت منی لانڈرنگ کے دو درجن سے زائد مقدمات درج کیے تھے۔