جمعے کی رات کو امریکی شہر اٹلانٹا میں پولیس کی فائرنگ سے ایک سیاہ فام امریکی کی ہلاکت کے بعد اٹلانٹا کے محکمہ پولیس کے جاری کردہ اعلان کے مطابق فائرنگ میں ملوث پولیس افسر کو ملازمت سے برخاست، جب کہ ایک اور پولیس اہل کار کو چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
دوسری طرف ریاست کیلی فورنیا میں دو سیاہ فام امریکیوں کی خود کشی کا معمہ ابھی حل نہیں ہو سکا۔ ان واقعات کے خلاف امریکہ میں احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اٹلانٹا میں پولیس کی شوٹنگ کے بعد پولیس کے سربراہ ایرک شیلڈ نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ جب کہ ایک افسر کو ملازمت سے برخواست اور دوسرے کو انتظامی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔ پولیس نے دونوں افسروں کے باڈی کیمروں کی فوٹیج بھی جاری کر دی ہیں۔
شوٹنگ کا واقعہ وقت پیش آیا جب ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورانٹ وینڈیز کے ڈرائیو ان میں ایک کار میں برنکس سو گیا جس سے دوسری گاڑیاں رک گئیں۔ اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی گئی۔ پولیس کی پوچھ گھچ پر اس نے بھاگنے کی کوشش کی جس پر ایک پولیس اہل کار نے گولی چلا کر اسے زخمی کر دیا جو بعد ازاں اسپتال میں دم توڑ گیا۔
جس جگہ شوٹنگ کا یہ واقعہ ہوا، وہاں مشتعل ہجوم نے ہفتے کی رات کو مظاہرہ کیا، ٹریفک روک دی اور قریب ہی واقع وینڈی ریسٹورنٹ کو آگ لگا دی۔ تاہم فائر بریگیڈ نے آگ پرر قابو پا لیا جب کہ پولیس نے 36 مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔
27 سالہ رے شارڈ بروکس کی ہلاکت نے ملک بھر میں پولیس کے امتیازی سلوک کے بارے میں سوالات کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے۔
اٹلانٹا کی میئر کائیشا لانس بوٹمز نے کہا ہے کہ پولیس سربراہ نے اپنی مرضی سے استعفیٰ دیا ہے۔ انہوں نے کہا انہیں احساس ہے کہ اس شوٹنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔
ریاست جارجیا کا تفتیشی بیورو واقعے کی تحقیقات کر رہا ہے۔ بیورو کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والا شخص بروکس، پولس افسر سے اس کا پستول چھین کر بھاگ رہا تھا، جب کہ بروکس خاندان کے وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس نے مہلک حملے کا بلا جواز ارتکاب کیا۔
دو سیاہ فاموں کی خودکشی کا معمہ
دوسری طرف جنوبی کیلی فورنیا میں دو سیاہ فام امریکیوں کی خودکشی ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ ایک ماہ کے اندر ہونے والے خود کشی کے دو واقعات کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آیا یہ خودکشی ہے یا انہیں ہلاک کیا گیا۔
پولیس ان دونوں واقعات کی تفتیش کر رہی ہے۔ دونوں مقامات کے حکام نے پہلے تو ان کو خود کشی قرار دیا تھا، مگر بعد میں علاقے کے لوگوں کے احتجاج کے بعد ان از سر نو تفتیش شروع کی جا رہی ہے۔
ہفتے کے روز مرنے والے ایک شخص فلر کی میموریل سروس کے موقع پر اس کی بہن نے کہا کہ ہم حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔ میرے بھائی نے خودکشی نہیں کی بلکہ اسے مجمع نے ہلاک کیا۔
منٹگمری قومی میوزیم کے الاباما کا کہنا ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں یہ ہوتا آیا ہے کہ سیاہ فامز مشتعل افراد کے ہاتھوں مار دیئے جاتے ہیں۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد یکے بعد دیگرے ان واقعات نے امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مہم اور احتجاج کو مزید ہوا دی ہے اور ملک بھر میں پولیس اصلاحات اور نسلی تعصب کے خلاف آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔