افغان حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر کرونا وائرس کی وبا افغانستان کی جیلوں تک پہنچ گئی تو امریکہ کی قیام امن کی کوششوں کو دھچکا لگ سکتا ہے۔
واضح رہے کہ افغانستان کی جیلوں میں ہزاروں طالبان قیدی موجود ہیں جنہیں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت رہا کیا جانا ہے۔ لیکن افغان حکام کو خدشہ ہے کہ جیلوں میں کرونا وائرس پھیلنے کی صورت میں ان قیدیوں کی رہائی تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے جس کا لامحالہ اثر ملک میں قیامِ امن کی کوششوں پر پڑے گا۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' نے پیش رفت سے آگاہ افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر کرونا وائرس افغانستان کی جیلوں تک پھیل گیا، تو کئی قیدی مر سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو ایک انسانی المیہ بھی جنم لے سکتا ہے۔
رائٹرز' کے مطابق ذرائع یہ بھی خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جیلوں میں وائرس پھیلنے کی صورت میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاملہ بھی مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے جس کے بعد بین الافغان مذاکرات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔
کرونا وائرس کے باعث امریکہ کے بیشتر سفارت کار سماجی پابندیوں پر عمل کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں طالبان کے سیاسی دفتر دوحہ میں طالبان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔
خلیل زاد نے پاکستان کا دورہ بھی کیا تھا جس میں اُنہوں نے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات بھی کی تھی۔
اس سے قبل 23 مارچ کو امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے بھی قطر اور کابل کے دورے کیے تھے۔
امریکہ اور طالبان نے 29 فروری کو دوحہ میں امن معاہدہ کیا تھا جس کے بعد افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
معاہدے کے تحت امریکہ نے طالبان کے لگ بھگ 5000 جب کہ طالبان نے اپنی حراست میں موجود 1000 افراد کو 10 مارچ تک رہا کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ لیکن افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا تھا۔
البتہ امریکہ کی مداخلت کے بعد افغان حکومت طالبان قیدی رہا کرنے پر رضا مند ہوگئی تھی۔ افغان حکومت نے مرحلہ وار 1500 طالبان قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ طالبان نے اب تک 40 زیرِ حراست افراد کو رہا کیا ہے۔
ایک غیر ملکی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 'رائٹرز' کو بتایا کہ امریکی صدر ٹرمپ ہر صورت اس معاہدے کا تحفظ چاہتے ہیں۔ وہ افغانستان سے فوج نکالنا چاہتے ہیں، اور اسے رواں سال امریکی صدارتی انتخابات میں اپنی فتح کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔
لہذٰا امریکی حکام اس عالمگیر وبا کے باوجود معاملے کی نزاکت کے پیش نظر براہ راست ملاقاتوں کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ایک سابق افغان سرکاری اہلکار نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ خلیل زاد چاہتے ہیں کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل تیز ہو تاکہ امن معاہدے کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ حالیہ ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
افغانستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد لگ بھگ 1000 ہو گئی ہے۔ افغانستان کے صدارتی محل کے 20 ملازمین کے کرونا ٹیسٹ بھی مثبت آئے ہیں۔
ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر کرونا وائرس کی وبا جیلوں تک پہنچ گئی تو طالبان قیدیوں سمیت کئی افراد اس کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو امن معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا اور طالبان پھر سے حملے شروع کر دیں گے جو بحران کے اس دور میں امریکی مفادات کے منافی ہو گا۔