کرونا وائرس بھی کیا اندھا دشمن ہے۔ مسیحا اور مریض میں فرق ہی نہیں رکھتا۔
ڈاکٹر عمیر خان نیویارک کے ماؤنٹ سینائی اسپتال میں مستعدی سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ رات بھر اپنی شفٹ میں متعدد مریضوں کو تمام تر طبی سہولتیں فراہم کرتے، ان کی دلجوئی کرتے وہ بالکل بھول چکے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ پہلے وہ خود کرونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ یقیناً یہ انفیکشن انہیں اپنے مریضوں میں سے ہی کسی سے ملا۔
یہ اس وبا کے ابتدائی دن تھے۔ ان کے اسپتال میں بظاہر کوئی مصدقہ مریض نہیں تھا۔ البتہ کچھ لوگوں میں کووڈ 19کی علامتیں پائی جاتی تھیں. تاہم وہ کہتے ہیں کہ ٹیسٹنگ پوری طرح موجود نہیں تھی اور ہم صرف بخار، کھانسی اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامتیں دیکھ کر اپنے طور پر مریضوں کا علاج کر رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک تھکا دینے والے ہفتے کے بعد انہیں دو روز کی چھٹی ملی تھی۔ گھر پہنچ کر ان کا ارادہ تھا کہ خوب آرام کریں گے۔ گھر پہنچنے تک ان کے گلے میں درد ہونے لگا۔ اور پھر کھانسی۔ بخار دیکھا تو زیادہ نہیں تھا۔ 100 یا اس سے کچھ زیادہ۔ مگر پھر جسم میں درد شروع ہوا اور پھر کمر میں درد ہونے لگا۔
یہ انہیں بعد میں پتہ چلا کہ کمر کا درد اصل میں پھیپھڑوں میں تکلیف کی وجہ سے تھا۔ دو دن تک وہ بالکل ہل نہیں سکے۔ انہوں نے خود کو کمرے میں بند کر لیا۔ پھر خود ہی اپنے علاج کا فیصلہ کیا اور ہائیڈرو کسی کلوروکوئین لینی شروع کر دی۔
ڈاکٹر عمیر خود ڈاکٹر ہونے کی وجہ سے اس مرض کی شدت کو جانتے تھے۔ پوری احتیاط کی۔ اور پھر رفتہ رفتہ ان کی حالت بہتر ہونے لگی۔ اور ایک ہی ہفتے بعد وہ اس قابل ہو گئے کہ اپنی ڈیوٹی پر واپس جا سکیں۔
اس عرصے میں نیو یارک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ امریکہ میں سب سے زیادہ مریض نیو یارک میں رپورٹ کئے گئے۔ اسی حساب سے اموات بھی ہونے لگیں۔
لیکن پھر میڈیکل ساز و سامان میں کمی کی خبریں آنے لگیں۔ اس طرح کی ہنگامی حالت اور وہ بھی امریکہ کے سب سے بڑے شہر میں اس سے پہلے صرف نائین الیون کے وقت دیکھی گئی تھی۔ طبی عملہ دن رات کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر عمیر بھی اپنی ڈیوٹی پوری تندہی سے انجام دے رہے ہیں۔
اسی دوران یہ خدشات بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ آیا کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے لوگ اس سے ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گئے ہیں؟ مگر اس سوال کا جواب حتمی طور پر کسی کے پاس نہیں۔
جریدے ٹائم کے مطابق جب سے جنوبی کوریا سے یہ خبریں آئی ہیں کہ وہاں کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے مریضوں میں اس کی علامتیں دوبارہ ظاہر ہو رہی ہیں، ماہرین یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ دیگر وائرسز کی طرح اس وائرس سے لوگ ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو جائیں گے۔
عالمی ادارہ صحت کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ اپنے ماہرین سے رابطے میں ہیں اور وہ پوری تندہی سے اس پر کام کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمیر خان کہتے ہیں صحت یاب ہو کر لوگوں کے دوبارہ بیمار ہونے کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس وائرس کے ایک سے زیادہ ٹریسز ہیں، یہی وجہ ہے کہ بہت سے ان کی عمر کے لوگ جنہیں کوئی اور بیماری نہیں ہے وینٹی لیٹر پر پہنچ گئے ہیں۔ اسی لئے سو فیصد نہیں کہا جا سکتا کہ لوگ ایک مرتبہ بیمار ہو کر دوبارہ اس کا شکار نہیں ہوں گے۔
نیویارک میں کوئینز کے علاقے میں ایک نرسنگ ہوم میں 40 اور بروکلین کے نرسنگ ہوم میں 55 افراد کے کرونا وائرس سے موت کا شکار ہونے کی تشویش ناک خبروں کے بارے میں ڈاکٹر عمیر کہتے ہیں کہ یہ لوگ 65 برس سے زیادہ عمر کے ہوتے ہیں اور انہیں دیگر بیماریاں مثلاً بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول وغیرہ کی تکلیف بھی ہوتی ہے۔ اس لئے یہ کرونا وائرس کا آسانی سے شکار ہو جاتے ہیں اور جانبر نہیں ہو پاتے۔
وائرس کی شدت کے ساتھ ہی نیو یارک اور بعض دیگر ریاستوں میں طبی عملے کیلئے ضروری حفاظتی سامان کی کمی کی خبریں بھی پریشان کن رہی ہیں۔ ڈاکٹر عمیر خان کہتے ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں کہہ دیا گیا ہے کہ پیپر گاؤنز نہیں ہیں۔ سر کیلئے کیپ بھی نہیں ملے گی۔ صرف ماسک ہیں اور دستانے۔ باقی ہم کچھ نہیں دے سکتے۔
وہ کہتے ہیں میرے پاس گاگلز ہیں جو انہوں نے پہلے دی تھیں اور این 95 ماسک جو وہ ہر وقت اپنے پاس رکھتے ہیں، گاڑی میں ساتھ لے آتے ہیں کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ بھی ختم ہو جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں ابھی تو ہم گزارہ کر رہے ہیں۔ مگر سب ڈرے ہوئے ہیں ۔پھر بھی تندہی سے اپنا فرض انجام دے رہے ہیں کیونکہ ہمیں اسی کی تربیت دی گئی ہے۔ لیکن ہیلتھ ورکر بھی انسان ہیں اور خطرات میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ کووڈ 19 سے انہیں بھی اتنا ہی خطرہ ہے۔ ڈاکٹر عمیر خان کہتے ہیں ان کی چھٹی تھی مگر انہیں ڈیوٹی پر بلا لیا گیا ہے کیونکہ جس کی ڈیوٹی تھی وہ ڈاکٹر بیمار پڑ گیا ہے۔
المیہ یہی ہے۔ یہ وائرس مسیحا اور مریض میں فرق نہیں کرتا۔ آفرین ہے ان ہیلتھ ورکرز پر جو ڈاکٹر عمیر کی طرح اس وائرس کو شکست دے کر پھر مسیحائی کیلئے ہمہ تن مصروف ہیں۔