ایک ماہ سے بھی کم عرصے کے دوران، پانچ ہزار سے زیادہ امریکی چین کی حکومت کے خلاف کرونا وائرس سے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کیلئے فلوریڈا کی ایک عدالت میں دائر دعوے میں شامل ہوگئے ہیں۔
مدعا علیہان کا کہنا ہے کہ کررونا وائرس کو قابو میں رکھنے میں چین کی لاپرواہی سے انہیں بڑے نقصان کا سامنا ہے۔ اسی قسم کے دعوے ریاست نیواڈا اور ٹیکساس میں بھی دائر کئے گئے ہیں۔
ریاست فلوریڈا میں دعویٰ دائر کرنے والے برمین لا گروپ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا دعویٰ ان افراد سے متعلق ہے جنہیں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کی وجہ سےجسمانی نقصان پہنچا ہے یا چین کی wet markets ویٹ مارکیٹس کی سرگرمیوں کی وجہ سے، یعنی ایسے بازار جہاں کھلے میں گوشت، مچھلیاں اور سبزیاں فروخت ہوتی ہیں، نقصان پہنچا ہے۔
اس لا فرم نےچین کے خلاف 'فارن سوورینٹی ایمیونٹییز ایکٹ' کے تحت پرسنل اِینجری اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ کو بنیاد بناتے ہوئے قانونی نکات اٹھائے ہیں۔ تاہم، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ہیسٹنگز لا کالج کے پروفیسر شی مینے کیٹنر اِن قانونی نکات سے متفق نہیں ہیں۔
پروفیسر کیٹنر کہتی ہیں کہ اگر آپ ان تمام مقدمات کا مطالعہ کریں جو اِس ایکٹ کے تحت دائر کئے گئے اور اُن پر فیصلہ آئے تو اس سے آپ پر پوری طرح سے واضح ہو جائے گا کہ پرسنل انجری یا جسمانی نقصان کیلئے کسی چینی عہدیدار کا امریکی علاقے میں موجود ہونا ضروری ہے، اور اس کا براہ راست تعلق اقتصادی سرگرمیوں سے بھی نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ آپ کسی غیر ملکی حکومت پر اس کے پالیسی فیصلوں کی وجہ سے مقدمہ دائر نہیں کر سکتے۔
برطانیہ کے ایک قدامت پسند تھنک ٹینک، ہینری جیکسن سوسائیٹی کا کہنا ہے کہ چین کے خلاف یہ قانونی دعویٰ ایک اشاریہ دو ٹریلین ڈالر تک کا ہو سکتا ہے۔ اپنی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں، برطانوی تھنک ٹینک کا کہنا ہے چین امکانی طور پر ان نقصانات کا ذمہ دار ہو سکتا ہے، کیونکہ ابتدا میں وہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی بیماری کے سلسلے میں بد انتظامی کا شکار ہوا۔
چین نے خصوصی طور پر جان بوجھ کر صحت کے عالمی ادارے سے معلومات اور اطلاعات خفیہ رکھیں، جو انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کی خلاف ورزی ہے، جو اس مقدمے کی بنیاد ہے۔
برطانوی تھنک ٹینک نے تمام ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ چین پر مقدمہ دائر کریں اور اس کے لئے اس نے دس مختلف قانونی قانونی پلٹ فارم کا ذکر کیا ہے، جن میں ڈبلیو ایچ او، دی انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، پرمانینٹ کورٹ آف آربٹریشن، ہانگ کی عدالتیں اور امریکہ کی عدالتیں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو کےدوران، برطانوی تھنک ٹینک، ہینری جیکسن سوسائیٹی کے ڈائیریکٹر، اینڈریو فاکسال کہتے ہیں کہ آگے بڑھنے کیلئے ایک سے زیادہ قانونی پلیٹ فارموں سے رجوع کرنا زیادہ موثر ہوگا۔
واشنگٹن یونیورسٹی، سکول آف لا اِن سینٹ لوئیس میں وزٹنگ پروفیسر ڈیوڈ فِڈلر کہتے ہیں کہ امریکہ جیسے ملکوں کا آگے بڑھ کر چین کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا کوئی زیادہ امکان نہیں ہے۔
بین لاقوامی ذمہ داری کے حوالے سے کسی دوسرے ملک کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کیلئے رسمی قانون کا نفاذ سب سے پہلے سن انیس سو بیس میں ٹریل سمیلٹر ثالثی معاہدے میں تسلیم کیا گیا تھا۔
کینیڈا کے علاقے برٹش کولمبیا میں ایک کان کو معدنیات حاصل کرنے کے لیے پگھلایا گیا، جس سے زہریلا دھواں سارے علاقے میں پھیل گیا، جس میں امریکی ریاست واشنگٹن کا کینیڈا کے ساتھ سرحدی علاقہ بھی شامل تھا۔ اس معاملےکے حل کیلئے، امریکہ اور کینیڈا نے ملکر ایک ٹربیونل قائم کیا اور کینیڈا کی حکومت نے ازالہ ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔
قانونی ماہر اس کا موازنہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ میں چین کی بین الاقوامی ذمہ داری سے کرتے ہیں۔
واشنگٹن اینڈ لی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر رسل مِلر کہتے ہیں کہ اگر ماحولیات کے حوالے سے کینیڈا کے قوانین موجود ہوتے تو کان کو پگھلانے سے زہریلا دھواں نہ پیدا ہوتا اور امریکی علاقے کو متاثر نہ کرتا۔ تو یہاں یہ معاملہ چین سے متعلق نظر آتا ہے۔ اگر چین نے خوراک کے حوالے سے مناسب قوانین نافذ کئے ہوتے تو پھر وائرس نہ پھیلتا۔