پاکستان میں 18سال قبل قتل ہونے والے امریکہ کے صحافی ڈینئل پرل کے اہل خانہ ان کے قتل میں ملوث ملزمان کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ڈینئل پرل کو 2002 میں کراچی میں قتل کیا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے گزشتہ جمعرات کو قتل کے 18 سال بعد مقدمے کا فیصلہ سنایا تھا۔ فیصلے کی رو سے عدالت نے تین ملزمان کو بری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید کی سزا میں بدلنے کا حکم دیا تھا۔
ڈینئل پرل کی قریبی دوست اور سابقہ ساتھی اسریٰ نعمانی کا کہنا ہے کہ ہم ڈینی (ڈینئل پرل) کے دوستوں اور اہل خانہ کی حیثیت سے فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ قتل کی سزا کو ختم کرنا ڈینئل کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔
عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے باوجود چاروں افراد حراست میں ہیں۔
پاکستانی حکام نے جمعہ کو کہا تھا کہ ان کے پاس چاروں افراد سے تفتیش کرنے اور مزید تین ماہ تک انہیں اپنے پاس رکھنے کی خاطر خواہ وجہ موجود ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ فیصلے کو چیلنج کرے گی۔
ڈینئل پرل امریکی اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' سے وابستہ تھے جنہیں مئی 2002 میں کراچی آمد پر اغوا کر لیا گیا تھا بعد ازاں ان کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
پولیس نے قتل کے الزام میں چار ملزمان عمر شیخ، فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو گرفتار کیا تھا جب کہ مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل اور اغوا کے جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔
چاروں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل دائر کی تھی جب کہ استغاثہ کی جانب سے مجرموں کی سزاؤں میں اضافے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
جمعرات کو عدالت نے تین ملزمان فہد نسیم، شیخ عادل اور سلمان ثاقب کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل کے الزام سے بری کرتے ہوئے سات سال قید کی سزا کا حکم سنایا تھا۔