امریکی ریاست نارتھ کیرولانیا کی روتھ برینٹ کو اپنی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر عجیب و غریب حالات میں جیل کا منہ دیکھنا پڑا۔
اسے نہ صرف گرفتار کیا گیا، بلکہ ہتھکڑی لگانے کے بعد قیدیوں کی گاڑی میں جیل پہنچایا گیا۔ جہاں اسے جیل کی یونیفارم پہنا کر مجرموں کے ریکارڈ کے لیے اس کی تصویر بنائی گئی۔ لیکن اسے جیل میں رات نہیں گزارنی پڑی بلکہ احترام کے ساتھ اپنے گھر پہنچا دیا گیا، کیونکہ اس نے کوئی جرم تو کیا ہی نہیں تھا۔
یہ دلچسپ واقعہ نارتھ کیرولائنا کے شہر راکس برو میں پیش آیا، جہاں برینٹ ایک اولڈ ایج ہاؤس میں رہتی ہیں۔ اپنی 100 ویں سالگرہ کے دن جب وہ صبح ناشتے کی میز پر بیٹھی تھیں، شیرف آفس کے چار باوردی پولیس اہل کار ڈائننگ روم میں داخل ہوئے اور وہیلز چیئر پر بیٹھی ہوئی ایک بزرگ خاتون سے پوچھا کہ آیا وہ روتھ برینٹ ہیں۔
اس نے ہاں میں جواب دیا تو ایک پولیس افسر نے اسے ایک کاغذ دکھاتے ہوئے کہا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر شیرف آفس نے اس کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں اور وہ اسے گرفتار کرنے آئے ہیں۔
دوسرے پولیس افسر نے برینٹ کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگا دی اور اس کی وہیل چیئر کو دھکیل کر باہر پورچ میں لے گیا جہاں قیدیوں کی گاڑی کھڑی تھی اور اس کی نیلی اور سرخ بتیاں جل بجھ رہی تھیں۔
وہیل چیئر سے گاڑی میں بٹھاتے ہوئے برینٹ کا پاؤں پولیس افسر کے گھٹنے سے چھو گیا۔ وہ بولا میڈم احتیاط۔ میرا یہ گھٹنا خراب ہے۔ برینٹ نے برجستہ جواب دیا۔ میرے دونوں ہی گھٹنے خراب ہیں۔
شیرف آفس پہنچ کر برینٹ کو قیدیوں والی اورنج کلر کی جیکٹ پہنائی گئی اور اسے قد ماپنے کے پیمانے کے ساتھ کھڑا کر کے جیل اور پولیس ریکارڈ کے لیے تصویر بنائی گئی۔
برینٹ کو بتایا گیا کہ انہیں جیل بھیجنے کے تمام ضابطے پورے کر لیے گئے ہیں۔
اگلے مرحلے میں انہیں جیل کے سیل میں لے جانے کی بجائے اولڈ ایج ہاؤس واپس پہنچا دیا گیا، جہاں ڈائننگ ہال میں سب لوگ 100 ویں سالگرہ کے کیک کے ساتھ اس کے منتظر تھے۔ انہوں نے زور دار تالیوں کے ساتھ برینٹ کا خیرمقدم کیا۔ کیونکہ برینٹ ہی نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی سالگرہ کا کیک گرفتار ہونے اور جیل جانے کے بعد کاٹنا چاہتی ہیں۔
شیرف آفس نے جھوٹ موٹ کی کارروائی کے ساتھ برینٹ کی خواہش پوری کر
کے اس کی سالگرہ کی خوشیوں میں اضافہ کر دیا۔