پاکستان میں سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والے نئے قواعد سے متعلق صارفین کی طرف سے سخت ردِ عمل سامنے آ رہا ہے۔ تاہم، وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا۔
فردوس عاشق اعوان کے مطابق گوگل، فیس بک اور انسٹا گرام سمیت دیگر کمپنیوں کو اپنے قوانین سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لیکن، اُن کی خواہشات پر مبنی قوانین نہیں بنا سکتے۔
پاکستان کے وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ یہ بہت اہم ہے کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جائے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ خواتین، توہین مذہب اور دوسروں کی بے عزتی کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ان کے بقول، ایسے گروپس موجود ہیں جو 15 سے 20 ہزار روپے لے کر ٹرینڈز بناتے ہیں اور متاثرہ افراد کی داد رسی کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ لہذا، نقصاندہ مواد کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ سوشل میڈیا ریگولیشنز کا ایک حصہ اشتہارات سے ہونے والی آمدنی سے متعلق ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیز کو ریگولیٹ کیا جانا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ یہ کمپنیاں ہماری معیشت کے فریم ورک میں آئیں۔
وزیر سائںس و ٹیکنالوجی کے مطابق، سوشل میڈیا قواعد کا تعلق عام صارفین سے نہیں ہے۔ ان قواعد میں لکھا گیا ہے کہ صرف نقصان دہ مواد کو ریگولیٹ کیا جائے گا۔ تاہم، اس کا مقصد کوئی سیاسی کنٹرول حاصل کرنا نہیں ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا ماہرین کی رائے
ڈیجیٹل میڈیا کے حوالے سے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے 'بائٹس فار آل' کے سربراہ شہزاد احمد کہتے ہیں کہ نئے سوشل میڈیا قواعد کا مقصد سائبر اسپیس کا کنٹرول حاصل کرنا ہے۔
ان کے بقول، نئے قواعد کا مقصد بڑے اداروں پر قوانین کا اطلاق کرنا ہے تو وہ جب تک پاکستان میں دفاتر نہ بنائیں ان پر تو یہ قواعد لاگو نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت سے طریقے موجود ہیں، کہا جاتا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی یا انسانی حقوق کے لیے یہ مواد کنٹرول کیا جاتا ہے۔ لیکن، پاکستان میں یہ رولز سلیکٹڈ استعمال ہوں گے، جس سے انٹرنیٹ ڈیولپمنٹ اور چھوٹے بزنسز زیادہ متاثر ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بہت جلدی اور خاموشی سے یہ قواعد جاری کیے ہیں۔ اس بارے میں بات ہونی چاہیے تھی، کیونکہ معلوم تو ہو کہ حکومت کا مقصد کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیس بک پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس کے بعد یوٹیوب اور گوگل بھی پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ایسے میں ان قواعد کا آنا ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کو مشکل بنا دے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم چین روس یا سعودی عرب نہیں بننا چاہتے۔ لیکن، اگر ملک کو اس سمت میں لے جایا جا رہا ہے تو اس سے مزید مشکلات ہوں گی۔
انہوں نے کہا کہ یہ کمپنیاں پاکستان میں کسی صورت نہیں آئیں گی۔ کوئی بھی کمپنی اس بات سے اتفاق نہیں کرے گی کہ وہ یہاں آکر اپنے دفاتر کھولیں اور ان پر پاکستانی قوانین کا اطلاق ہو۔ یہ رولز بنا تو دیے گئے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کیسے ہوگا یہ ایک مشکل سوال ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس وقت بہت سا مواد جو پاکستان میں انٹرنیٹ پر آ رہا ہے ان کے سرور بیرون ملک ہیں۔ لیکن، وہاں پاکستانی قواعد کیسے لاگو ہوں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ممکن ہوگا۔ ایسے کنٹرول حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا۔
شہزاد احمد نے کہا کہ ہمیں بطور ایک فرد یا گروہ کی حیثیت سے ذمہ دارانہ استعمال پر کام کرنا چاہیے۔ نفرت انگیز مواد کا جواب نفرت انگیز ہوتا ہے، لیکن خطرناک یا مذہبی گروہوں کی طرف سے جو خطرات سامنے آتے ہیں ہمیں ان پر اخلاقی اور ذمہ دارانہ استعمال کی سوچ دینی چاہیے۔ اگر انٹرنیٹ کو ذمہ دارانہ استعمال کیا جائے تو شخصی آزادیاں مضبوط اور محفوظ ہوں گی۔ لیکن، ریگولیشنز کے ذریعے ان تمام معاملات پر کنٹرول حاصل کرنا بہت مشکل ہوگا۔
پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں، بشمول میڈیا میٹرز فار ڈیموکریسی، پاکستان پریس فاؤنڈیشن، گلوبل نیبرہوڈ فار میڈیا انوویشن، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشییٹوز سمیت دیگر اداروں نے بھی سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔ خاص طور پر یہ نکتہ اٹھایا گیا تھا کہ ڈیجیٹل میڈیا انڈسٹری کو ریگولیٹ کرنا پیمرا کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ اس سلسلے میں کوئی بھی پالیسی عوام کے منتخب نمائندوں کی طرف سے آنی چاہیے۔
حکومت کیا کہتی ہے
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ سوشل میڈیا کو مادر پدر آزاد اور بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اگر کوئی کمپنی رولز کی پابندی نہیں کرتی تو نیشنل کوآرڈینیٹر انہیں بلاک کرنے کی ہدایت کر سکتا ہے۔
ان کے بقول، دفاتر ملک سے باہر ہونے کی صورت میں یہ کمپنیاں پاکستان کے لیے آزاد تھیں۔ لیکن، اب دفاتر ہونے کی وجہ سے انہیں روکا جا سکے گا۔
انہوں نے کہا کہ اتھارٹی کے فیصلوں کے خلاف نظرثانی کی درخواست بھی دی جا سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے ہائی کورٹ کو اپیل کا فورم بنایا گیا ہے۔ اس سے کمپنیوں اور صارفین سب کے مفاد کا تحفظ ہو سکے گا۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی نیشنل سیکیورٹی کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور ہم کوئی ون سائیڈڈ قانون سازی نہیں کر رہے۔ اس بارے میں گوگل، فیس بک اور انسٹا گرام کو اپنے قوانین سے آگاہ کر رہے ہیں۔ لیکن، ان کی خواہشات پر مبنی قوانین نہیں بن سکتے۔
'ہماری کوشش ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان آئیں'
سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی شعیب احمد صدیقی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آئین میں بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شخص کا تحفظ کرے۔ دوسرے کا احترام اور تحفظ ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔
ان کے بقول، ہماری کوشش ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان آئیں۔ پاکستان بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ یہاں آنا ان کے ہی مفاد میں ہے۔
اس سوال پر کہ کمپنیوں کے پاکستان نہ آنے کی صورت میں انہیں بند کر دیا جائے گا، شعیب صدیقی نے کہا کہ رولز میں سب کچھ لکھا ہے۔ کل صبح تک کچھ نہیں ہو رہا۔ لیکن، سسٹم کے ساتھ انہیں بتایا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ سمجھ جائیں گے۔
لوگوں میں خوف و ہراس کے حوالے سے سیکریٹری انفارمیشن ٹیکنالوجی نے کہا کہ لوگوں نے ان رولز کو ٹھیک سے سمجھا نہیں ہے۔ آن لائن جب کسی شخص کو خوف زدہ کیا جاتا ہے تو ان کو تحفظ ریاست نے فراہم کرنا ہے اور ابھی جو لوگ ان قواعد سے خوفزدہ ہیں انہوں نے اس کو ٹھیک سے سمجھا ہی نہیں ہے۔
یوٹیوبرز کیا کہتے ہیں
یوٹیوب چینل چلانے والے صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ یہ بہت مشکل ہے کہ پاکستان ان بین الاقوامی کمپنیوں کو یہاں آنے پر مجبور کر سکے۔ ایسے میں زیادہ نقصان پاکستان جیسے اکانومی کے حوالے سے غریب ملک کا ہوگا۔ ان رولز کے بنانے سے یہ کمپنیاں آپ کے زیر کنٹرول نہیں آ سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف رولز یعنی قواعد ہیں۔ لیکن، انہیں قوانین کا نام دیا جا رہا ہے۔ قانون ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بنتا ہے۔ ان رولز کے ذریعے پارلیمنٹ کے حق کو غصب کیا گیا ہے۔ لیکن، مجھے امید ہے کہ جب بھی انہیں کسی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو انہیں مسترد کر دیا جائے گا۔
مطیع اللہ جان کے مطابق، ان رولز میں عدالتوں کو اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن، عدالت کورٹ آف لا پر چلتی ہیں کورٹ آف رولز پر نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بڑی بڑی کمپنیاں اور مین اسٹریم میڈیا معاشی طور پر سمجھ رہے ہیں کہ یوٹیوب اور فیس بک پر مواد چلانے والے ان کا بزنس خراب کر رہے ہیں۔ لیکن، حقیقت یہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ سچ نہیں دکھا رہے اور ان کا متبادل جب ڈیجیٹل میڈیا پر جب سچ دکھایا جاتا ہے تو لوگ دیکھتے ہیں اور اسی بات کا عام لوگوں کو ڈر ہے۔ یہ رولز بنوانے میں اسی فارمل میڈیا کا بھی بہت کردار ہے۔
نئے رولز ہیں کیا؟
پاکستان میں وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے رولز کی منظوری دی ہے، جس کے تحت یوٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر، ٹِک ٹاک کے لیے اسلام آباد میں دفتر کھولنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ خلاف ورزی کی صورت میں 50 کروڑ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
نئے رولز کو الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اور انٹیلی جنس ادارے کو قابل اعتراض مواد پر کارروائی کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ہے۔
حکومت نے ان رولز کو ضروری قرار دیا ہے جب کہ سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اور ڈیجیٹل میڈیا سے منسلک لوگوں نے اس پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی مخالفت کے باوجود پاکستان میں وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں وفاقی کابینہ نے سوشل میڈیا قواعد کی منظوری دی ہے، جسے پارلیمان سے منظور کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
نئے رولز پر فی الفور عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔ نئے قواعد کے تحت رابطے کی تمام سماجی ویب سائٹس کو تین ماہ میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اپنا دفتر قائم کرنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رابطہ افسر بھی تعینات کرنا ہوگا۔ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور کمپنیوں کو ایک سال میں پاکستان میں اپنے ڈیٹا سرورز بھی بنانا ہوں گے۔
سوشل میڈیا صارفین کو قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے خلاف بات کرنے پر بھی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور تمام کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیشنل کو آرڈینیشن اتھارٹی بھی بنائی جائے گی۔
گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو سوشل میڈیا ریگولیشن سے روکنے کی سفارش کی تھی۔