رسائی کے لنکس

جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم


بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں سیکیورٹی بدستور سخت ہے اور انٹرنیٹ سروسز بحال نہیں ہو سکی ہیں۔
بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں سیکیورٹی بدستور سخت ہے اور انٹرنیٹ سروسز بحال نہیں ہو سکی ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ نے جمعے کو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں گزشتہ پانچ ماہ سے انٹرنیٹ خدمات اور مواصلاتی نظام پر عائد پابندیوں سے متعلق درخواستوں پر اپنے حکم میں حکومت کو فیصلے پر ایک ہفتے کے اندر اندر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا ہے۔

عدالتِ اعظمیٰ نے انٹرنیٹ تک رسائی کو آئینِ ہند کی دفعہ 19 کے تحت شہریوں کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے ایسی تمام سرکاری اور مقامی تنظیموں کی ویب سائٹوں کو بحال کرنے کا حکم دیا ہے جہاں انٹرنیٹ کا غلط استعمال کم ہوتا ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر میں دفعہ 144 کے تحت بندشوں کو غیر معینہ عرصے تک نافذ نہیں کیا جا سکتا بلکہ غیر معمولی حالات میں ہی اس کا نفاذ کیا جا سکتا ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس دفعہ کا استعمال بار بار نہیں کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو اس پر واضح موقف پیش کرنا چاہیے۔

بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019 کو اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری کو منسوخ کیا تھا اور متنازع ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر کے براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے ایک دن پہلے جموں و کشمیر میں مکمل مواصلاتی بلیک آؤٹ، بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور عام لوگوں کی نقل و حرکت پر بندشیں عائد کرنے کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا گیا۔

ان پابندیوں کے خلاف عدالت عظمی میں متعدد افراد نے درخواستیں دائر کی تھیں۔ بھارتی حکومت کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے دلائل پیش کرتے ہوئے عدالت میں کہا تھا کہ ریاست میں امن کی بحالی کے لیے پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

سپریم کورٹ میں عرضی دائر کرنے والوں میں 'کشمیر ٹائمز ' کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے عدالت کے فیصلے پر اپنے ردِ عمل میں وائس آف امریکہ کو بتایا، "عدالت نے کوئی فوری راحت فراہم نہیں کی ہے، جو مایوس کن ہے۔ تاہم عدالت نے چند اہم اصول وضح کیے ہیں جن کا ایک لمبا اثر پڑے گا۔ عدالت نے شہریوں کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور ریاست کو ان حقوق کی خلاف ورزی کرنے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے اور اسے اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے جو خوش آئند بات ہے"۔

انہوں نے مزید کہا " تاہم عدالت نے حکومت کو انٹرنیٹ سروسز کو بحال کرنے کے لیے کوئی واضح ہدایت جاری نہیں کی ہے اور نہ دفعہ 144 کو ہٹانے کی بات کہی ہے۔ اس نے حکومت کو صرف اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے کہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں حکومت کا اگلا قدم کیا ہو گا، یہ دیکھنا باقی ہے۔ ہم نے پانچ ماہ انتظار کیا۔ ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کیا۔ ایک ہفتہ یا دس دن اور انتظار کر لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ حکومت کیا کرتی ہے۔ بہرحال سپریم کورٹ کا فیصلہ خوش آئند ہے۔ لیکن اس سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ انٹرنیٹ تک رسائی کو شہری کا بنیادی حق تسلیم کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دفعہ 144 کے تحت بندشیں غیر معینہ عرصے کے لیے نہیں عائد کی جا سکتی ہیں تو اس نے یہ فیصلہ سنانے میں پانچ ماہ کیوں لگائے"۔

بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے لیڈر محمد یوسف تاریگامی نے عدالتِ اعظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس کے مدنظر بھارتی حکومت کے خلاف عدالتی کارروائی ہونی چاہیے یا پھر لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے پر اس کی سرزنش کی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا، "نریندر مودی حکومت کو لوگوں کے بنیادی حق کو سلب کرنے کا ذمہ دار قرار دیا جانا چاہیے۔ عدالتِ اعظمیٰ نے اہم نکتے ابھارے ہیں اور اہم ریمارکس پاس کیے ہیں۔ ان کی روشنی میں فیصلے ہونے چاہییں۔ حکومت جموں و کشمیر میں حالات نارمل ہونے کا ڈھنڈورا نہ صرف ملک بھر میں بلکہ پوری دنیا کے سامنے پیٹتی آ رہی ہے۔ اسی مقصد کے لیے نئی دہلی میں تعینات 16 غیر ملکی سفارت کاروں کو سرینگر اور جموں کا دورہ کرایا گیا۔ لیکن اب حکومت کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔"

تاریگامی نے نظر بند سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کی فوری رہائی کا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا، "حکومت کو سیاسی سرگرمیوں پر قدغنیں عائد کر کے جمہوریت کو پامال کرنے کے لیے عوام سے معافی مانگنی چاہیے یا پھر اسے اس کے لیے سزا ملنی چاہیے۔ اگر یہ عدالت ایسا نہیں کر سکتی تو اس سے بڑی عدالت ایسا ضرور کر لے گی اور وہ ہے ملک کی عوامی عدالت"۔

جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس اور بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بھی عدالتِ اعظمیٰ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس کے صوبائی صدر دھریندر سنگھ رانا نے کہا، "سپریم کورٹ کی طرف سے جن آراء کا اظہار کیا گیا ہے وہ انتہائی اہم ہیں۔ حکومت کو ان کو روشنی میں اقدام اٹھانے چاہییں"۔

جموں کشمیر میں کانگریس پارٹی کے صدر غلام احمد میر نے کہا، "ہماری پارٹی نے مواصلاتی بلیک آؤٹ اور لوگوں اور سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین پر عائد کی جانے والے بندشوں پر جو موقف اختیار کیا ہے سپریم کورٹ نے اس کی تائید کی ہے۔ ریاستی عوام نے طرح طرح کے مصائب جھیلے ہیں ان کا مداوا ہونا چاہیے۔ کشمیر کی معیشت کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حکومت کو اس کی تلافی کرنی چاہیے"

کانگریس کے ایک سرکردہ لیڈر رندیپ سنگھ سُرجیوالا نے ایک ٹویٹ میں کہا، "سپریم کورٹ کے فیصلے سے مودی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ مودی اور شاہ (بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ) کے لیے دوہرا صدمہ یہ ہے کہ اختلاف رائے کو دفعہ 144 نافذ کر کے دبایا نہیں جا سکتا۔ مودی جی کو یاد دلایا گیا ہے کہ قوم آئین کے سامنے جھکتی ہے نہ کہ اُن کے سامنے"۔

بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کی حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تا حال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ایک اعلیٰ پولیس افسر سے جب عدالتِ اعظمیٰ کے فیصلے کے بارے میں استفسار کیا گیا تو اُس نے کہا، "یہ عدالت اور حکومت کے درمیان معاملہ ہے"۔

عام لوگوں کی طرف سے عدالت کے فیصلے پر ملے جلے تاثرات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کچھ نے امید ظاہر کی کہ اب انٹرنیٹ پر پانچ ماہ سے عائد پابندی ہٹائی جائے گی اور بندشوں کا خاتمہ ہو گا۔ کچھ کی یہ رائے تھی کہ حکومت لوگوں کو فوری طور پر یہ سہولت نہیں دے گی۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG