رسائی کے لنکس

جنید حفیظ جیل میں انصاف کا منتظر


جنید حفیظ کے خلاف چھ سال سے توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔
جنید حفیظ کے خلاف چھ سال سے توہین مذہب کے الزام میں مقدمہ چل رہا ہے۔

توہین مذہب کے الزام میں ملتان کی سینٹرل جیل میں قید بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے وزیٹنگ لیکچرر جنید حفیظ کے والد حفیظ النصیر کا کہنا ہے کہ جنید جیل میں مشکل وقت گزار رہا ہے لیکن اس نے پڑھنا نہیں چھوڑا اور اب تک اس نے جیل میں پانچ ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے راجن پور کے حفیظ النصیر پراعتماد ہیں کہ انہیں انصاف ملے گا۔ ان کا خیال ہے کہ اب تک جتنی سماعتیں ہو چکی ہے اور جو گواہ پیش ہو چکے ہیں اور وکلا جس طرح کی جرح کر چکے ہیں، اس سے ہمیں لگتا ہے کہ میرے بیٹے جنید پر لگے الزامات جھوٹے ثابت ہوں گے۔

’’وہ اپنے اپنے حساب سے جھوٹے ہوئے ہیں۔ انہوں نے الزام لگائے تھے۔ وہ صحیح ثابت نہیں کر سکے۔ انشاءاللہ ہمیں امید ہے کہ اسی کورٹ سے ہمیں بریت ملے گی اور میرا بیٹا جنید رہا ہو گا۔ "

کس مشکل کا سامنا ہے؟

پاکستان میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔ یہی کچھ جنید حفیظ کی فیملی کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے جنید حفیظ کے والد کی آنکھیں نم ہو گئیں اور آواز بھرا گئی۔

’’ہمارے خاندان نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے۔ ایک ایک پل بھاری رہا ہے۔ ہمارا وکیل قتل ہو گیا۔ ملتان میں کوئی وکیل کیس لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ہمیں لاہور سے وکیل کرنا پڑا۔ ہم بڑے مشکل حالات سے گزرے۔ سارا کاروبار تباہ ہو گیا۔ ساڑھے چھ سال ہو گئے ہیں، ہم پر ایک ایک پل بھاری رہا۔ ہمیں جنید سے ملنے میں بڑے مسائل رہے۔ شروع شروع میں ہمیں اپنی پرائیویٹ سیکیورٹی رکھنا پڑی۔ ہمیں ایک سال تو وکیل ہی نہیں ملا، کیونکہ یہاں کی ڈسٹرکٹ بار ملتان نے ایک قرارداد پاس کی کہ جنید حفیظ کا کوئی وکیل نہیں بنے گا۔ ہم بڑے پریشان رہے۔‘‘

وکیل کی تلاش کا مرحلہ کتنا مشکل تھا؟

’’ایچ آر سی پی نے راشد رحمان کو کہا کہ یہ وہ ہمارا کام کریں گے۔ راشد رحمان صاحب بھی کوشش کرتے رہے۔ جیل ٹرائل کے لیے ہم نے اپلائی کیا تھا۔ اللہ کا کرم یہ ہوا کہ راشد رحمان نے ہمیں جیل ٹرائل دلوا دیا۔ جیل ٹرائل کے بعد پہلی پیشی پر جو ہمارے مخالف وکیل تھے، انہوں نے ایڈیشنل سیشن جج کے سامنے راشد رحمان کو یہ دھمکی دی تھی کہ آپ یہ کیس کو چھوڑ دیں، ورنہ آپ کے لیے اچھا نہیں ہو گا بلکہ آپ اگلی پیشی پر نہیں آ سکیں گے، اور یہ بات انہوں نے جج کے سامنے کہی تھی اور ایسا ہی ہوا۔ اگلی پیشی پر ان کا قتل ہو گیا۔ پھر اس کے بعد ہمیں ایک سال تک وکیل نہیں ملا۔ پھر ہمیں لاہور سے ایک وکیل ملا ۔"

معاشی حالات پر کیا اثر پڑا ؟

"40 سے 45 ہزار روپے ہمارے ایک پیشی پر لگ جاتے ہیں۔ میرا اچھا کاروبار تھا جب یہ واقعہ ہوا۔ میں بالکل تباہ ہوگیا ہوں۔ میرا کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔ میں نے اپنے سارے زیور بیچ دیے ہیں۔ میرے اپنے پلاٹ تھے وہ بھی میں نے بیچ دیے۔ میری ایک گاڑی تھی میں نے وہ بھی بیچ دی۔ شروع میں انہوں نے جنید کو ساہیوال جیل میں رکھا تھا۔ ایک سال تک مجھے ساہیوال جیل جانا پڑا۔ پھر اب وہ سنٹرل جیل ملتان میں ہے۔ ہم ذہنی طور پر بھی اپ سیٹ ہیں اور معاشی طور پر بھی ہم بہت اپ سیٹ ہیں۔ میرا ایک چھوٹا بیٹا ہے۔ اس کی اب سیلری شروع ہوئی ہے تو اب وہ ہمیں تھوڑا سا سپورٹ کر رہا ہے۔

الزام کے بعد لوگوں کا رویہ؟

’’لوگوں کو جب پتا لگا کہ اس قسم کا سنگین الزام لگا ہے، تو انہوں نے میرے ساتھ کاروبار کرنا بھی چھوڑ دیا۔ میرے اپنے عزیز چھوڑ گئے۔ مجھے رشتہ دار چھوڑ گئے سب چھوڑ گئے۔‘‘

جنید حفیظ جیل میں کیا کر رہا ہے؟

بہا الدین زکریا یونیورسٹی میں ایم فل انگلش کرنے کے بعد جنید حفیظ نے اسی شعبے میں وزیٹنگ لیکچرر شپ شروع کی۔ اسی دوران اس پر توہین مذہب کا الزام لگا۔ ملتان کے تھانہ الپہ میں ایف آئی آر درج ہوئی اور 13 مارچ سن 2013 سے وہ جیل کی چار دیواری سے باہر نہیں آ سکا۔ اس کے والد حفیظ النصیر کے مطابق اس نے جیل میں بھی ایک کام نہیں چھوڑا اور وہ ہے کتابیں پڑھنا۔

’’میرا بیٹا جنید انتہائی حساس ہے۔ خیر اس نے بات سمجھ لی۔ اس نے پھر کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔ میں اس کے لیے ہر ہفتے تین سے چار کتابیں لے جاتا ہوں۔ وہ پڑھ لیتا ہے تو وہ میں واپس لے آتا ہوں اور اگلے ہفتے اسے دوسری کتابیں دے آتا ہوں۔ اس نے اس وقت تک پانچ ہزار کتابیں پڑھ لی ہیں۔ اگر وہ کتابیں نہ پڑھتا تو میرا خیال ہے کہ اب تک وہ پاگل ہو چکا ہوتا یا مر گیا ہوتا۔‘‘

کیس اور ساڑھے چھ برس ۔۔۔

’’اس کیس میں ساڑھے چھ سال میں ہمارے نو جج تبدیل ہوئے ہیں اور جو ہمارے مخالف تھے، اور سنا ہے کہ اس کے پیچھے بڑے لمبے ہاتھ تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ ہمیں اسپورٹ نہ ملے۔ جو جج تھوڑی سماعت کرتے تھے تو ان کی سمجھ میں اتنا آتا تھا کہ معاملہ ایسے نہیں۔ تو پھر ان کا تبادلہ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح پراسیکیوٹر بھی اپنی مرضی کے آ رہے ہیں جا رہے ہیں۔‘‘

باپ کی امید اور آس زندہ ہے

’’انشاء اللہ ہمیں مکمل اعتماد ہے، مکمل امید ہے، پاکستانی عدلیہ پر کہ وہ صحیح فیصلہ کرے گی اور انشاءاللہ میرا بیٹا باعزت بری ہو گا اور جلد ہو گا ‘‘

XS
SM
MD
LG