پاکستان کے ثقافتی دارالحکومت لاہور میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والا کرکٹ میلہ انتہائی کامیابی کے ساتھ اختتام پزیر ہو گیا۔ تین ٹی 20 میچوں کی سیریز پاکستان نے ورلڈ الیون کے خلاف کھیلتے ہوئے 2-1 سے جیت لی۔
ہار اور جیت سے قطع نظر سب سے زیادہ اطمنان بخش اور خوش کن بات یہ ہے کہ اس سیریز نے پاکستان کیلئے بین الاقوامی کرکٹ واپس ملک میں لانے کے امکانات روشن کر دئے ہیں۔
سیریز کے دوسرے ٹی 20 میچ کے دوران آئی سی سی کے چیف ایگذیکٹو ڈیوڈ رچرڈسن بھی لاہور میں موجود تھے اور اُنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی کے ہمراہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےاس توقع کا اظہار کیا کہ اس سیریز کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی واپسی کا راستہ کھل گیا ہے تاہم بیرونی ٹیموں کے مکمل دورے کی بحالی میں کچھ وقت لگے گا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نجم سیٹھی نے نوید سنائی کہ اگلے ماہ ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم تین ٹی 20 میچوں کی سیریز کھیلنے کیلئے پاکستان آئے گی۔ اس کے علاوہ سری لنکا کی ٹیم بھی اگلے ماہ تین ٹی 20 میچوں کی سیریز کا ایک میچ پاکستان میں کھیلنے پر رضامند ہو گئی ہے۔
بھارت کے ساتھ کرکٹ تعلقات کی بحالی کے مسئلے پر بھی آئی سی سی کے چیف ایگذیکٹو نے بتایا کہ بھارت اگرچہ کمرشل حوالے سے دنیا کی بہت اہم ٹیم ہے تاہم یہ ٹیسٹ کرکٹ کا درجہ رکھنے والی 12 ٹیموں میں سے ایک ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آئی سی سی بھارت پاکستان کرکٹ کی بحالی میں ہر ممکن کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔
ورلڈ الیون کے کپتان ڈوپلیسی نے سیریز کے اختتام پر کہا کہ اس سیریز کا مقصد کرکٹ سے بڑھ کر تھا اور وہ مقصد نہایت خوبی سے حاصل کیا جا رہا ہے۔
اس سیریز میں پاکستانی ٹیم کے حوالے سے یہ خوش آئیند بات ہے کہ فٹنس کا معیار بہت اچھا رہا۔ اسی وجہ سے سیریز کے تیسرے اور آخری میچ میں پاکستانی ٹیم نے ورلڈ الیون کے تین بیٹسمینوں کو رن آؤٹ کیا۔ یوں اندازہ ہوتا ہے کہ کھلاڑی فٹنس کی اہمیت سے اب اچھی طرح آگاہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ حکمت عملی میں بھی ماضی کے مقابلے میں بہت نمایاں تبدیلی دیکھی گئی۔ ماضی میں زیادہ تر دفاعی انداز اپنایا جاتا رہا جس کے باعث اکثر اوقات پاکستانی ٹیم دنیا کی دیگر بڑی ٹیموں سے میچ ہارتی رہی۔ اس سیریز کے دوران تینوں میچوں میں کھلاڑیوں نے جارحانہ انداز اپنایا اور اپنے اپنے رول کو بہترین طریقے سے نبھایا اور یوں کامیابی اُن کا مقدر بنی۔
پاکستانی ٹیم میں اگرچہ عالمی سطح کے سوپر اسٹار شامل نہیں ہیں۔ تاہم حسن علی، رومان رئیس اور عثمان خان شنواری کی شکل میں اچھے بالر اور فخر زمان، احمد شہزاد اور بابر اعظم کی صورت میں بہترین بلے باز ابھر کر سامنے آئے ہیں جو مستقبل میں پاکستانی ٹیم کیلئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اس سیریز میں شائقین نے جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا ہے، اُس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ کرکٹ پاکستان میں پہلے کی طرح بے حد مقبول ہے۔ تینوں میچوں میں 27,000 کی گنجائش والا قذافی اسٹیڈیم کھچا کھچ بھرا رہا۔ ان تماشائیوں کے علاوہ بے شمار لوگ ایسے بھی تھے جنہیں میچ دیکھنے کیلئے ٹکٹ نہ مل سکا۔ لہذا مستقبل میں شاید پاکستان کرکٹ بورڈ کی ترجیحات میں قذافی اسٹیڈیم اور ملک کے دگر کرکٹ اسٹیڈیمز میں گنجائش بڑھانے کے اقدامات بھی شامل ہوں۔
تاہم اس بات کا قدرے افسو س رہا کہ ملک کے دیگر شہروںکے ساتھ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ابھی تک بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہے۔ پی سی بی اعلان کر چکی ہے کہ آئیندہ پی ایس ایل کے کچھ میچ کراچی اور دیگر شہروں میں بھی کرائے جائیں گے۔ تاہم اس کے لئے ان شہروں میں موجود کرکٹ اسٹیڈیم میں مرمت اور بحالی کیلئے خطیر سرامئے کی ضرورت ہو گی۔