کنٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) نے پارلیمنٹ میں ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں اس نے بھارتی فوج میں گولہ بارود کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ اس نے آرڈیننس فیکٹری بورڈ کی کارکردگی میں بھی کمی کی جانب اشارہ کیا اور کہا کہ 2013 کے مقابلے میں اس کی فیکٹریوں کے کام کاج میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
رپورٹ کے مطابق ”152اقسام کے گولہ بارود میں، جو کہ جنگ لڑنے کے لیے بہت اہم سمجھے جاتے ہیں، 61 اقسام کے گولہ بارود کا ذخیرہ اتنا کم ہے کہ اگر جنگ چھڑ جائے تو وہ دس روز میں ختم ہو جائے گا“۔
بھارتی فوج کو کم از کم اتنا گولہ بارود رکھنا ہوتا ہے کہ وہ 20 روز تک چل سکے۔ اس سے قبل فوج کو 40 روز کا ذخیرہ رکھنا ہوتا تھا۔ 1999 میں اس کے ”وار ویسٹیج ریزرو“ کا ذخیرہ کم ہو کر 20 دن کا رہ گیا تھا۔
ایک سابق فوجی افسر میجر جنرل افسر کریم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ کہنا مشکل ہے کہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ تاہم یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومت اس معاملے پر اتنی توجہ نہیں دے رہی ہے جتنی دینے کی ضرورت ہے“۔
انھوں نے مزید کہا کہ ”فوجوں کو اپنی ضروریات کی تکمیل کرنی ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایسے موقع پر جب آپ کے پڑوس میں دو ایسے ملک ہیں جو آپ کے حریف ہیں، ضرورتوں کی تکمیل ضروری ہے۔ جنگ کی امید کم ہے۔ لیکن تیاری رکھنا اور بات ہے اور جنگ کا نہ ہونا اور با ت ہے۔ انفرا اسٹرکچر میں بھارت تھوڑا پیچھے رہتا ہے جس سے فوج کو تشویش ہو جاتی ہے“۔
میجر جنرل افسر کریم نے یہ بھی کہا کہ ”موجودہ وقت میں کوئی بھی لڑائی زیادہ دن نہیں چل سکتی۔ اس کے لیے موجودہ ہتھیار کافی ہوں گے ۔اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ چاروں طرف ہتھیار لے کر لڑائی ہو تب تو کارکردگی کم ہو جائے گی۔ ورنہ آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ گولہ بارود بھیج سکتے ہیں“۔
توپ خانہ کے ایک سابق افسر لیفٹننٹ جنرل وی کے چترویدی نے کہا کہ ”رپورٹ میں خاص طور پر دھماکوں اور میزائیل میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک فیوز میں کمی کی بات کہی گئی ہے جس کی وجہ سے توپ کے دھماکوں، میزائیل اور مورٹار میں گولہ بارود کے استعما ل میں دشواری آسکتی ہے“۔
ایک دوسرے دفاعی ماہر میجر جنرل ڈی کے مہتہ کے مطابق ”گولہ بارود میں کمی کا معاملہ باعث تشویش ہے۔ ہمیں وار ویسٹیج ریزرو کو برقرار رکھنا ہوتا ہے اور سالانہ ہونے والی مشقوں کے لیے بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے“۔
سیاسی مبصرین پاکستان کے ساتھ بھارت کے کشیدہ تعلقات اور چین کے ساتھ ڈوکلام علاقے میں بڑھتے سرحدی تنازعہ کے پیش نظر سی اے جی رپورٹ پر اظہار تشویش کرتے ہیں