واشنگٹن —
اِن دِنوں امریکہ کے دورے پر آئی ہوئی برما کی حزبِ اختلاف کی راہنما، آنگ سان سوچی نے کہا ہے کہ وہ برما پر امریکی تجارتی پابندیاں ختم کرنے کی حمایت کرتی ہیں، ’کیونکہ، یہ وقت ہے کہ ملکی عوام اپنے پیروں پر کھڑے ہوں‘۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
اپوزیشن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیمو کریسی‘ کی لیڈر نے تقریباً دو عشرے نظربندی میں گزارے ہیں۔
اِس تاثر کے بارے میں کہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تعزیرات نے برما کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا ہے، اُنھوں نے کہا کہ وہ اِس نکتہٴ نظر سے اتفاق نہیں کرتیں۔
اِس ضمن میں اُنھوں نے’ آئی ایم ایف‘ کی رپورٹوں کا حوالہ دیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن پابندیوں کے باعث برما پر اقتصادی طور پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ تاہم، سوچی کے بقول، ’میرے خیال میں (اِن تعزیرات کا) سیاسی اثر زیادہ رہا ہے اور اِس نے ہمیں جمہوریت کی جدوجہد میں مدد دی ہے‘۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
بیس سال سے زیادہ عرصے میں اُن کا امریکہ کا پہلا دورہ ہے۔ اِس موقع پر، آنگ سان سوچی کو’ کانگریشنل گولڈ میڈل‘ سے نوازا جائے گا۔امریکی وزیر خارجہ، ہیلری کلنٹن نے اُن کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔
برما میں گذشتہ برس کے دوران جِس رفتار سے سیاسی تبدیلی آئی ہے وہ حیران کُن ہے: آنگ سان سوچی کی گھر میں نظربندی کے خاتمے سے لے کر اُن کا پارلیمان کے لیے منتخب ہونا، بیشترپابندیوں کا خاتمہ اور اِس ہفتے 500سے زیادہ سیاسی قیدیوں کی رہائی۔
مگر جمہوریت کی حامی لیڈر کا کہنا تھا کہ برما کی یہ تبدیلی اِس وقت تک ناقابلِ ترمیم نہیں ہے، ’ جب تک کہ فوج خود کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا عزم نہیں کرتی‘۔
اُن کے بقول، موجودہ آئین کے تحت فوج اگر ضروری سمجھے تو ملکی حکومت کے تمام حصوں پر کسی بھی وقت قابض ہوسکتی ہے۔ چناچہ، جب تک فوج واضح طور پر اور مسلسل جمہوری عمل کی حمایت نہیں کرتی، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ناقابلِ تغیر ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ اِس تغیر کا ہمیں زیادہ خوف بھی نہیں ہونا چاہیئے۔
فوج نے برما پر کئی عشرے حکومت کی ہے اور تمام اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اِس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی تھیں۔
سنہ 2010کے انتخابات کے نتیجے میں نئے لیڈر سامنے آئے، جو اگرچہ سویلین ہیں، مگر فوج سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔ تاہم، پھر بھی حکومت نے بتدریج سیاسی و اقتصادی اصلاحات کی ہیں، جِن کی وجہ سے واشنگٹن نے پہلے ہی تعزیرات میں نرمی کردی ہے۔
اُنھوں نے یہ بات منگل کے روز ’وائس آف امریکہ‘ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہی۔
اپوزیشن کی ’نیشنل لیگ فور ڈیمو کریسی‘ کی لیڈر نے تقریباً دو عشرے نظربندی میں گزارے ہیں۔
اِس تاثر کے بارے میں کہ کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی تعزیرات نے برما کو اقتصادی طور پر نقصان پہنچایا ہے، اُنھوں نے کہا کہ وہ اِس نکتہٴ نظر سے اتفاق نہیں کرتیں۔
اِس ضمن میں اُنھوں نے’ آئی ایم ایف‘ کی رپورٹوں کا حوالہ دیا جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اِن پابندیوں کے باعث برما پر اقتصادی طور پر زیادہ اثر نہیں پڑا۔ تاہم، سوچی کے بقول، ’میرے خیال میں (اِن تعزیرات کا) سیاسی اثر زیادہ رہا ہے اور اِس نے ہمیں جمہوریت کی جدوجہد میں مدد دی ہے‘۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
بیس سال سے زیادہ عرصے میں اُن کا امریکہ کا پہلا دورہ ہے۔ اِس موقع پر، آنگ سان سوچی کو’ کانگریشنل گولڈ میڈل‘ سے نوازا جائے گا۔امریکی وزیر خارجہ، ہیلری کلنٹن نے اُن کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا۔
برما میں گذشتہ برس کے دوران جِس رفتار سے سیاسی تبدیلی آئی ہے وہ حیران کُن ہے: آنگ سان سوچی کی گھر میں نظربندی کے خاتمے سے لے کر اُن کا پارلیمان کے لیے منتخب ہونا، بیشترپابندیوں کا خاتمہ اور اِس ہفتے 500سے زیادہ سیاسی قیدیوں کی رہائی۔
مگر جمہوریت کی حامی لیڈر کا کہنا تھا کہ برما کی یہ تبدیلی اِس وقت تک ناقابلِ ترمیم نہیں ہے، ’ جب تک کہ فوج خود کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کا عزم نہیں کرتی‘۔
اُن کے بقول، موجودہ آئین کے تحت فوج اگر ضروری سمجھے تو ملکی حکومت کے تمام حصوں پر کسی بھی وقت قابض ہوسکتی ہے۔ چناچہ، جب تک فوج واضح طور پر اور مسلسل جمہوری عمل کی حمایت نہیں کرتی، ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ناقابلِ تغیر ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ اِس تغیر کا ہمیں زیادہ خوف بھی نہیں ہونا چاہیئے۔
فوج نے برما پر کئی عشرے حکومت کی ہے اور تمام اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ اِس کی وجہ سے امریکہ اور دیگر کئی ممالک نے حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کررکھی تھیں۔
سنہ 2010کے انتخابات کے نتیجے میں نئے لیڈر سامنے آئے، جو اگرچہ سویلین ہیں، مگر فوج سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔ تاہم، پھر بھی حکومت نے بتدریج سیاسی و اقتصادی اصلاحات کی ہیں، جِن کی وجہ سے واشنگٹن نے پہلے ہی تعزیرات میں نرمی کردی ہے۔