’پاکستان سے ہرمہینے تقریباً 40 سے 50 ہندو خاندان بھارت ہجرت کررہے ہیں ۔ اس ہجرت کی سب سے بڑی وجہ ہندو برادری کی لڑکیوں کاجبری مذہب تبدیل کرانا ہے‘۔ یہ کہنا ہے پاکستان میں ہندووٴں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان ہندو کونسل‘ کے سربراہ ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا۔
ڈاکٹر رمیش مزید کہتے ہیں’ ہر مہینے 8سے 10لڑکیوں کو جبری طور پراپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاجاتاہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہجرت کی حقیقت کو قبول نہیں کیا جارہا ۔
ہندو برادری پاکستان کو اپنی دھرتی ماں تسلیم کرتی ہے اور اپنی ماں کے سائے دار دامن کو کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا مگر حالات اس نوعیت کے ہیں کہ ہجرت کا دکھ سہنا پڑرہا ہے‘۔ اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے بدھ کو کراچی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
پاکستان کو ایک اور ہجرت کا سامنا
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے ’پاکستانی تاریخ ‘ لفظ ’ہجرت ‘سے بہت گہرے مراسم رکھتی ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو جس زمین سےعملی طور پر ابھرے وہ درد سے کراہ اٹھتی ہے اور جہاں کی جائے وہاں عرصے تک زمین چھوڑنے کا درد مہاجروں کو چین سے جینے نہیں دیتا۔
تناور درختوں کو جڑ سے اکھڑنے اور کسی اجنبی آب و ہوا میں پنپنے ، ناپنپنے کے خوف کا جو جان لیوا دکھ سہنا پڑتا ہے، اس کا احساس صرف ہجرت کرجانے والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔پاکستان کی ہندو برادری بھی ان دنوں کچھ اسی قسم کے درد سے گزر رہی ہے۔ لاکھ کوئی کہے مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کو ان دنوں پھر ایک ہجرت کا سامنا ہے۔
ہجرت کی وجہ ۔۔نابالغ لڑکیوں کا اغوا
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کے مطابق ہندو برادری کو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا ہے ، لاقانونیت ، جاگیرداری ، جاگیریت اور برادری کے خلاف جرائم کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ مذہب کی جبری تبدیلی ہے۔ ہندو برادری کی نالغ لڑکیوں کو اغوا اورہمیشہ کے لئے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ سے دور کردیا جاتا ہے ۔
مجھے بتایئے کون سی ماں یہ برداشت کرے گی کہ اس کی لخت جگر کو ہمیشہ کے لئے اس سے دور کردیا جائے یا کون سا باپ ہوگا جو اپنی نابالغ لڑکی کے ساتھ جبری کوئی عمل برداشت کرے گا۔ آج ہندو برادری کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ، یہی وہ مسئلہ ہے جس کے سبب ہجرت عام ہورہی ہے۔
ہمیں اپنی مرضی سے کسی کے اسلام قبول کرنے پر اعتراض نہیں ، جبری مذہب تبدیل کرانے پر اعتراض ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ آج ہندو برادری کی نابالغ لڑکیاں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
بھارتی شہریت اختیار کرنے کا طریقہ ۔۔۔۔!!!
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ بھارت جانے والے پاکستانی شہریوں کو ایک ماہ کا وزٹ ویزا دیا جاتا ہے جس میں بھارت جاکرقانونی طور پر ایک سال تک توسیع کرالی جاتی ہے ۔ یہ توسیع مسلسل چھ یا سات سالوں تک کرائی جاسکتی ہے جس کے بعد بھارتی شہریت کے لئے درخواست دینا آسان ہوجاتا ہے ۔ پاکستانی شہری اپنے بھارتی رشتے داروں کی سپورٹ پر وہاں جاتے رہتے اور ویزا میں توسیع کراتے رہتے ہیں۔
764پاکستانیوں کو بھارتی شہریت
بھارت کے ایک ریاستی وزیر داخلہ ایم راماچندرن نے بدھ کو راجیہ سبھا میں تحریری بیان جمع کرایا ہے کہ بھارت نے سنہ 2009سے 2011ء تک کی تین سالہ مدت کے دوران 764پاکستانی ہندوں کو بھارتی شہریت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بھارت سرکار کو 1290پاکستانی شہریوں کی جانب سے بھارتی شہریت کے لئے درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے 764پاکستانی شہریوں کو بھارتی شہریت دی گئی۔
کھوکھرا پار موناباوٴ ۔۔ہجرت کا آسان راستہ
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ لاہور سے اٹاری براستہ واہگہ بھارت جانا کافی مہنگا پڑتا ہے، اس کے مقابلے میں کھوکھراپار موناباوٴ ٹرین روٹ کے ذریعے بھارت جانا ناصرف آسان ہے بلکہ اس پر 500روپے سے زیادہ کا خرچہ نہیں آتا لہذا عمرکورٹ ، مٹھی ، تھرپارکر اور دیگر دوردراز کے علاقوں میں آباد نہایت غریب ہندو خاندان بڑے پیمانے پر کھوکھراپار مونا باوٴ ٹرین روٹ کے ذریعے بھارت کا رخ کررہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر عمرکوٹ، جیکب آباد، سکھر ڈویژن، لاڑکانہ ڈویژن اور بلوچستان میں آباد ہندو تیزی سے بھارت منتقل ہورہے ہیں۔
سچ کی قبولیت سے خوف
رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ حکام کو یہ سچ قبول کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے حالانکہ یہ کڑوا سچ اب انہیں تسلیم کرلینا چاہئے ۔ ہماری حکومت سے بات چیت چل رہی ہے ، میں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو تین صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی خط لکھا ہے ، وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب سے بھی ہماری ملاقات ہوچکی ہے ، ہم اس خط کی کاپی انہیں بھی دے چکے ہیں۔ اس خط میں پاکستانی برادری کو درپیش تمام مسائل رقم ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی مگر اب کچھ ہفتوں سے اس معاملے پر حکام کی سوچ گہری ہوئی ہے۔
کیا چاہتی ہے ہندو برادری ؟
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی موجود نہیں۔ اقلیتوں کے لئے ریزو نشستوں پر اقلیتی ممبران تو موجودہیں لیکن وہ سلیکشن کے ذریعے اسمبلی میں پہنچے ہیں الیکشن کے ذریعے نہیں۔یہ اپنی پارٹی کے نمائندے تو ہوسکتے ہیں ہندوبرادری کے نہیں۔ انہیں ہمارے مسائل کا کیا پتہ ۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اقلیتی نمائندوں کو”تھرو سلیکشن “کے بجائے ”تھرو الیکشن“ منتخب کیا جانا چاہئیے۔
ہم نے حکام مشورہ دیا ہے کہ ہندو اور کرسچن برادری کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ جو حکومت سے بات چیت کرے اور ہمارے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرے۔ حکومت ان مسائل کے حل کو سمجھتے ہوئے آئین میں تبدیلی لائے تاکہ اقلیتی برادری کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے۔
نابالغ لڑکیوں کے اغوا کو روکنے کے حوالے سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ باقاعدہ اس سمت قانون سازی ہو۔ اسلام میں لڑکی جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی بالغ تسلیم کرلی جاتی ہے لیکن ہندو مت کے مطابق لڑکی کے مذہب تبدیل کرتے وقت اس کی عمر کم از کم 18سال ہونی چاہئیے، تاکہ وہ مذہب و عقائد کا مطلب بھی پوری طرح سمجھ سکے اور پھر اس کام میں اس کی اپنی مرضی شامل ہو، اس پر کسی کا کوئی دباوٴ یا جبر نہ ہو۔
ڈاکٹر رمیش مزید کہتے ہیں’ ہر مہینے 8سے 10لڑکیوں کو جبری طور پراپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیاجاتاہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہجرت کی حقیقت کو قبول نہیں کیا جارہا ۔
ہندو برادری پاکستان کو اپنی دھرتی ماں تسلیم کرتی ہے اور اپنی ماں کے سائے دار دامن کو کوئی چھوڑنا نہیں چاہتا مگر حالات اس نوعیت کے ہیں کہ ہجرت کا دکھ سہنا پڑرہا ہے‘۔ اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے بدھ کو کراچی میں وائس آف امریکہ کے نمائندے سے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
پاکستان کو ایک اور ہجرت کا سامنا
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے ’پاکستانی تاریخ ‘ لفظ ’ہجرت ‘سے بہت گہرے مراسم رکھتی ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جو جس زمین سےعملی طور پر ابھرے وہ درد سے کراہ اٹھتی ہے اور جہاں کی جائے وہاں عرصے تک زمین چھوڑنے کا درد مہاجروں کو چین سے جینے نہیں دیتا۔
تناور درختوں کو جڑ سے اکھڑنے اور کسی اجنبی آب و ہوا میں پنپنے ، ناپنپنے کے خوف کا جو جان لیوا دکھ سہنا پڑتا ہے، اس کا احساس صرف ہجرت کرجانے والے لوگ ہی کرسکتے ہیں۔پاکستان کی ہندو برادری بھی ان دنوں کچھ اسی قسم کے درد سے گزر رہی ہے۔ لاکھ کوئی کہے مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان کو ان دنوں پھر ایک ہجرت کا سامنا ہے۔
ہجرت کی وجہ ۔۔نابالغ لڑکیوں کا اغوا
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کے مطابق ہندو برادری کو مذہب کی بنیاد پر امتیاز کا سامنا ہے ، لاقانونیت ، جاگیرداری ، جاگیریت اور برادری کے خلاف جرائم کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا اور بنیادی مسئلہ مذہب کی جبری تبدیلی ہے۔ ہندو برادری کی نالغ لڑکیوں کو اغوا اورہمیشہ کے لئے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ سے دور کردیا جاتا ہے ۔
مجھے بتایئے کون سی ماں یہ برداشت کرے گی کہ اس کی لخت جگر کو ہمیشہ کے لئے اس سے دور کردیا جائے یا کون سا باپ ہوگا جو اپنی نابالغ لڑکی کے ساتھ جبری کوئی عمل برداشت کرے گا۔ آج ہندو برادری کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے ، یہی وہ مسئلہ ہے جس کے سبب ہجرت عام ہورہی ہے۔
ہمیں اپنی مرضی سے کسی کے اسلام قبول کرنے پر اعتراض نہیں ، جبری مذہب تبدیل کرانے پر اعتراض ہے ۔ پچھلے پانچ سالوں سے جبری طور پر مذہب تبدیل کرانے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے ۔ آج ہندو برادری کی نابالغ لڑکیاں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔
بھارتی شہریت اختیار کرنے کا طریقہ ۔۔۔۔!!!
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ بھارت جانے والے پاکستانی شہریوں کو ایک ماہ کا وزٹ ویزا دیا جاتا ہے جس میں بھارت جاکرقانونی طور پر ایک سال تک توسیع کرالی جاتی ہے ۔ یہ توسیع مسلسل چھ یا سات سالوں تک کرائی جاسکتی ہے جس کے بعد بھارتی شہریت کے لئے درخواست دینا آسان ہوجاتا ہے ۔ پاکستانی شہری اپنے بھارتی رشتے داروں کی سپورٹ پر وہاں جاتے رہتے اور ویزا میں توسیع کراتے رہتے ہیں۔
764پاکستانیوں کو بھارتی شہریت
بھارت کے ایک ریاستی وزیر داخلہ ایم راماچندرن نے بدھ کو راجیہ سبھا میں تحریری بیان جمع کرایا ہے کہ بھارت نے سنہ 2009سے 2011ء تک کی تین سالہ مدت کے دوران 764پاکستانی ہندوں کو بھارتی شہریت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بھارت سرکار کو 1290پاکستانی شہریوں کی جانب سے بھارتی شہریت کے لئے درخواستیں موصول ہوئی تھیں جن میں سے 764پاکستانی شہریوں کو بھارتی شہریت دی گئی۔
کھوکھرا پار موناباوٴ ۔۔ہجرت کا آسان راستہ
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ لاہور سے اٹاری براستہ واہگہ بھارت جانا کافی مہنگا پڑتا ہے، اس کے مقابلے میں کھوکھراپار موناباوٴ ٹرین روٹ کے ذریعے بھارت جانا ناصرف آسان ہے بلکہ اس پر 500روپے سے زیادہ کا خرچہ نہیں آتا لہذا عمرکورٹ ، مٹھی ، تھرپارکر اور دیگر دوردراز کے علاقوں میں آباد نہایت غریب ہندو خاندان بڑے پیمانے پر کھوکھراپار مونا باوٴ ٹرین روٹ کے ذریعے بھارت کا رخ کررہے ہیں جبکہ مجموعی طور پر عمرکوٹ، جیکب آباد، سکھر ڈویژن، لاڑکانہ ڈویژن اور بلوچستان میں آباد ہندو تیزی سے بھارت منتقل ہورہے ہیں۔
سچ کی قبولیت سے خوف
رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ حکام کو یہ سچ قبول کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے حالانکہ یہ کڑوا سچ اب انہیں تسلیم کرلینا چاہئے ۔ ہماری حکومت سے بات چیت چل رہی ہے ، میں نے صدر پاکستان آصف علی زرداری صاحب کو تین صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی خط لکھا ہے ، وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک صاحب سے بھی ہماری ملاقات ہوچکی ہے ، ہم اس خط کی کاپی انہیں بھی دے چکے ہیں۔ اس خط میں پاکستانی برادری کو درپیش تمام مسائل رقم ہیں۔ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی تھی مگر اب کچھ ہفتوں سے اس معاملے پر حکام کی سوچ گہری ہوئی ہے۔
کیا چاہتی ہے ہندو برادری ؟
ڈاکٹر رمیش وانکوانی کا کہنا ہے کہ اسمبلی میں اقلیتوں کی نمائندگی موجود نہیں۔ اقلیتوں کے لئے ریزو نشستوں پر اقلیتی ممبران تو موجودہیں لیکن وہ سلیکشن کے ذریعے اسمبلی میں پہنچے ہیں الیکشن کے ذریعے نہیں۔یہ اپنی پارٹی کے نمائندے تو ہوسکتے ہیں ہندوبرادری کے نہیں۔ انہیں ہمارے مسائل کا کیا پتہ ۔ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ اقلیتی نمائندوں کو”تھرو سلیکشن “کے بجائے ”تھرو الیکشن“ منتخب کیا جانا چاہئیے۔
ہم نے حکام مشورہ دیا ہے کہ ہندو اور کرسچن برادری کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے ۔ جو حکومت سے بات چیت کرے اور ہمارے مسائل سے حکومت کو آگاہ کرے۔ حکومت ان مسائل کے حل کو سمجھتے ہوئے آئین میں تبدیلی لائے تاکہ اقلیتی برادری کو آئینی تحفظ حاصل ہوسکے۔
نابالغ لڑکیوں کے اغوا کو روکنے کے حوالے سے ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ باقاعدہ اس سمت قانون سازی ہو۔ اسلام میں لڑکی جسمانی بلوغت کے ساتھ ہی بالغ تسلیم کرلی جاتی ہے لیکن ہندو مت کے مطابق لڑکی کے مذہب تبدیل کرتے وقت اس کی عمر کم از کم 18سال ہونی چاہئیے، تاکہ وہ مذہب و عقائد کا مطلب بھی پوری طرح سمجھ سکے اور پھر اس کام میں اس کی اپنی مرضی شامل ہو، اس پر کسی کا کوئی دباوٴ یا جبر نہ ہو۔