ایک ہی پیالے میں جمایا گیا پانچ فلیور کا دہی، تازہ پھلوں کے پلاؤ، قسم قسم کے کباب اور گلاب کا شربت۔ برِ صغیر میں مغل بادشاہوں کے دور میں سحر و افطار کے دسترخوان پر اور کیا کیا ہوتا تھا؟ جانیے مغل دور کے پکوانوں پر ریسرچ کرنے والی سلمیٰ یوسف حسین سے۔
"کشمیر ہنرمند لوگوں کی بستی ہے۔ رمضان میں ہماری آمدنی بھی زیادہ ہوتی تھی اور خرچ بھی۔ بچپن میں ہمیں بھوک لگتی تو گھر والے کہتے تھے کہ دھوپ میں کھانا کھاؤ، اس سے تمہارے روزے نہیں ٹوٹیں گے۔" دیکھیے کشمیر کے تاریخ داں ظریف احمد ظریف کی رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"پہلا روزہ رکھا تو تین، چار بار پانی پی لیا۔ سحری میں چاولوں میں کھجور ڈال کر کھاتے تھے۔ رات کو لڑکے ساتھ بیٹھ کر فلموں کی کہانیاں سناتے تھے۔" دیکھیے اداکار جمال شاہ کے بچپن کے رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"روزے کا وقت ہوتے ہی توپ کا گولہ چھوڑا جاتا تھا اور اسی طرح سحر کا وقت ختم ہوتے ہوئے بھی گولہ داغا جاتا تھا۔ ہمارے بھوپال میں مہمان داری بہت ہوتی تھی۔ خواتین ہاتھ سے سویاں بناتی تھیں جو بہت باریک ہوتی تھیں۔" ریٹائرڈ اسکول پرنسپل نسیم حمزہ کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"رمضان میں ہمارے محلے میں اذان کی آواز نہیں آتی تھی اور اس دور میں سائرن بھی نہیں بچتا تھا۔ افطار کے لیے اونچی عمارتوں پر ایک بانس پر بلب لگا دیتے تھے۔ جب بلب روشن ہوتا تھا تو پتا چلتا تھا کہ روزہ کھل گیا۔" دیکھیے ڈاکٹر نگار سجاد کی گزرے رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"اب تو مہینہ پہلے رمضان کی تیاری ہوتی ہے لیکن ہمارے زمانے میں ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ایک تو مالی وسائل نہیں ہوتے تھے دوسرا ہمارے والد کہتے تھے کہ فریج کا رکھا ہوا کھانا نہیں کھانا، لہٰذا ہر چیز تازہ بنتی تھی۔" دیکھیے صحافی حمیرا اطہر کی گزرے رمضان کی یادیں وی او اے کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"پاکستان ملٹری اکیڈمی میں سحری اور افطاری میں ہمیں ٹھوس ٹھوس کر کھلایا جاتا تھا۔ رمضان میں ہماری روٹین تبدیل ہو جاتی تھی۔ ہم پوری رات جاگ کر ٹریننگ اور دن میں آرام کرتے تھے۔ یونٹ کی مسجد میں ختم قرآن کے موقع پر میں خود تقریر کرتا تھا، مولوی صاحب کو نہیں کرنے دیتا تھا۔"
"ایدھی صاحب کو باجرے کے کباب بہت پسند تھے۔ میں ایدھی صاحب کا انتظار کرتا تھا اور ان کے گھر آنے تک روزہ نہیں کھولتا تھا۔ 2005 کے زلزلے کے بعد ہم بہت سارے روزے نہیں رکھ سکے تھے۔" ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی اور ان کی اہلیہ صبا فیصل کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"دہلی کی جامع مسجد کے مینار کی لائٹیں بند ہونے سے پتا چلتا تھا کہ سحری کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ جامع مسجد میں ہر وقت رونق رہتی تھی۔ لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ روزہ افطار کرنے جامع مسجد آتے تھے۔" دہلی میں رمضان کی روایات پر دیکھیے خلیل احمد کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
"میں نے روزہ رکھا تو دادی پیار سے کہنے لگیں کہ بیٹا کیلا کھا لے، کیلے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ٹریفک نہیں تھی تو اتنی خاموشی ہوتی تھی کہ بادشاہی مسجد پر موتی شاہ رات میں بغیر لاؤڈ اسپیکر کے نعت پڑھتے تھے، ان کی آواز ہماری چھت تک آتی تھی۔"
"میری روزہ کشائی میں تو ہار کے علاوہ سہرا بھی باندھا گیا تھا۔ ایک بار رمضان میں شہید فلم دیکھنے چلے گئے۔ گھر آئے تو پتا چلا کہ والد صاحب نے پریشان ہو کر کوتوالی میں بھی ہماری گمشدگی کی اطلاع کر دی تھی۔" سینئر صحافی حسین نقی کے بچپن کی دلچسپ یادیں وائس آف امریکہ کی نئی سیریز 'ماضی کے رمضان' میں۔
دیکھیے علامہ اقبال کی بہو اور لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس (ر) ناصرہ جاوید کی رمضان کی یادیں وائس آف امریکہ کی سیریز 'ماضی کا رمضان' میں۔