سماجی کارکنان کے مطابق ابھی تک کوئی سائنسی تحقيق نہيں ہوئی ليکن مئی اور جون ميں سال کے دوسرے مہينوں کی نسبت خود کشی کی شرح بہت زيادہ ہوتی ہے۔
برقی آلات اور جدید مشینیں صدیوں پرانی ٹیکنالوجی کو ختم کر رہی ہیں۔ برقی چکیاں آ جانے سے پن چکیوں کا استعمال متروک ہوتا جا رہا ہے۔ پن چکیاں جو پہلے اکثر پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ پائی جاتی تھیں، اب خال خال ہی دکھائی دیتی ہیں۔ دیکھیے 'متروک پیشوں' پر وائس آف امریکہ کی خصوصی سیریز کا چھٹا حصہ
پولیس کے مطابق ایک موبائل ویڈیو وائرل ہونے پر دونوں خواتین کو قتل کیا گیا۔ ویڈیو ايک سال پرانی ہے۔ دونوں کو ان کے قريبی رشتے داروں نے غيرت کے نام پر نشانہ بنایا۔ جس لڑکے نے ویڈیو بنائی تھی وہ لاپتا ہے۔
عباس استنکزئی کے بقول جہاں تک ہماری معلومات ہيں وہ طالبان کی تحويل ميں نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پاس ان کی گمشدگی کے بارے ميں کسی قسم کی اطلاع ہے۔
رمضان میں افطار کے لیے پکوڑوں اور سموسوں کے ساتھ جلیبی نہ ہو تو دسترخوان ادھورا سا لگتا ہے۔ اسی لیے کرونا کی وبا کے باوجود شیرینی میں ڈوبی گرما گرم جلیبی لینے کے لیے راولپنڈی کی مشہور دکان 'دی گراٹو' پر خریداروں کی بھیڑ رہتی ہے۔ راولپنڈی کی اس مشہور گراٹو جلیبی میں منفرد کیا ہے؟ دیکھیے اس رپورٹ میں۔
چکوال میں دریائے سواں کے کنارے پر محمد امجد نے کچھ سال قبل اپنا ڈیری فارم بنایا تھا۔ انہوں نے صرف چند مویشی خرید کر کاروبار شروع کیا تھا جو اب خاصا پھیل چکا ہے۔ اب وہ اپنے کاروبار کو جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں۔ امجد نے اس کاروبار میں کیسے کامیابیاں سمیٹیں؟ جانتے ہیں نذر الاسلام کی رپورٹ میں۔
سوات کی تحصيل بريکوٹ کے ڈی ايس پی کے مطابق ہر عورت غيرت کے نام پر قتل نہيں ہوتی۔ ميڈيا ميں ہر قتل کو غيرت کے نام پر قتل سے جوڑا جاتا ہے ليکن لوگوں کی معاشی، نفسياتی، سماجی اور دوسرے عوامل کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
شادی بياہ اور ديگر تقريبات سميت ہر قسم کی سرگرميوں پر پابندی کے باعث فن کاروں کے گھروں ميں تنگ دستی نے ڈيرے ڈال لیے ہيں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ صوبے میں صحتِ عامہ کی ناکافی سہولیات اور عوام میں آگاہی کی کمی کے باعث بہت سے مریض تشویش ناک حالت میں اسپتال لائے جا رہے ہیں۔ جس سے لامحالہ اموات کی شرح زیادہ ہے۔
طالبان ترجمان نے کہا ہے کہ اگر ہمارے قيدی امن معاہدے کے تحت 10 مارچ سے پہلے رہا کردیے جاتے تو اب تک بين الافغان مذاکرات شروع بھی ہو چکے ہوتے۔
پشاور کی نمک منڈی کی دنبہ کڑاہی اور نمکین گوشت اپنی لذت کے باعث ملک بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف پاکستانی بلکہ دیگر ممالک کے شہری بھی پشاور کی سوغات سمجھے جانے والے یہ پکوان پسند کرتے ہیں۔
پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کے ایک خاندان سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سليمہ رحمان راولپنڈی کے ایک سرکاری اسپتال میں فرائض انجام دے رہی ہیں۔ ان کے والد نے قدامت پسند معاشرے کی روایات کے برخلاف اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلائی ہے۔ سلیمہ کا ڈاکٹر بننے کا سفر کیسا رہا؟ جانیے انھی کی زبانی
افغانستان کے صوبہ بغلان سے تعلق رکھنے والے 40 سالہ شخص کو سات اپریل کو مردان ميڈيکل کمپليکس ميں داخل کرايا گيا تھا۔ اسپتال انتظاميہ کے مطابق انہيں گزشتہ کئی سالوں سے دمہ کی شکايت تھی۔
طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہيل شاہين کے مطابق بين الاافغان مذاکرات کے لیے تمام قيديوں کو غير مشروط طور پر رہا کرنا ہی ماحول کو سازگار بنانے ميں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
کرونا وائرس کے پیشِ نظر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی فیس ماسک اور ہینڈسینیٹائزر کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ لیکن پشاور میں يا تو ہینڈ سينیٹائزر دستياب ہی نہیں اور اگر کسی دکان دار کے پاس ہیں بھی تو وہ منہ مانگی قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ لیکن کیا ہینڈ سینیٹائزر کے بغیر بھی کرونا وائرس سے بچنا ممکن ہے؟
گلگت بلتستان میں کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 187 ہے۔ البتہ بعض افراد کا کہنا ہے کہ قرنطینہ میں موجود افراد کے ٹیسٹ منفی آنے کے باوجود اُنہیں گھر نہیں جانے دیا جا رہا۔
افغان مہاجرين بھی کرونا وائرس کے ممکنہ پھيلاؤ سے پريشان ہيں۔ ان کے مطابق ابھی تک تو حالات قابو ميں ہيں تاہم وبائی شکل کی صورت ميں کيمپس کے حالات بگڑ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر آصف کہتے ہیں کہ کام کے دباؤ کے باعث تھکاوٹ ہوتی ہے۔ شفٹ کے دوران وہ صرف بسکٹس پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ کھلی چیزوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، کیوں کہ اُنہوں نے خود کو مکمل طور پر سٹراليئز کيا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عامر علی خان نے ایک مريض کے معائنے کے دوران چہرے پر ماسک کے بجائے پلاسٹک کا بيگ پہنا تھا۔ اس تصوير کے سوشل ميڈيا پر وائرل ہونے کے بعد لوگوں نے خیبرپختونخوا حکومت کو آڑے ہاتھوں ليا تھا۔
کرونا وائرس کا پھیلاؤ چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا تھا۔ جب یہ وبا پھیلی تو ووہان میں سیکڑوں پاکستانی طلبہ مقیم تھے جو تقریباً دو ماہ تک وہیں محصور رہے۔ اس عرصے میں انہیں کن تجربات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے کیا حالات دیکھے؟ جانتے ہیں ایک پاکستانی طالبہ کی زبانی
مزید لوڈ کریں