شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے خاران میں سابق جج کو حملہ کر کے ہلاک کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس خاران، نذیر کرد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سابق چیف جسٹس سابق چیف جسٹس پر قاتلانہ حملہ اس وقت ہوا جب وہ مسجد میں عشا کی نماز ادا کرر ہے تھے۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ لاشوں کی برآمدگی کا نوٹس لے کر واقعے کی تحقیقات کرے اور لاشوں کے شناخت کے لیے اقدام اٹھائے اور ان کے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے تاکہ واضح ہو سکے کہ یہ کن کی لاشیں ہیں۔
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں فوج کا ایک ہیلی کاپٹر فلائنگ مشن کے دوران گر کر تباہ ہوگیا، جس میں دو پائلٹوں سمیت چھ فوجی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع صحبت پور میں کئی روز گزرنے کے باوجود بھی سیلابی پانی لوگوں کے گھروں اور فصلوں میں کھڑا ہے۔ متاثرین سڑک کنارے کھلے آسمان تلے پناہ لیے ہوئے ہیں جو چارپائیوں اور عارضی خیموں میں دن رات گزار رہے ہیں۔ تفصیلات مرتضیٰ زہری کی اس رپورٹ میں۔
سندھ کے بعد سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبہ بلوچستان کے کئی اضلاع زیرِ آب آنے سے صوبے کا باقی ملک سے رابطہ بھی منقطع ہو گیا تھا۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کو جانوروں اور حشرات الارض سے خطرات لاحق ہیں۔ کہیں مچھروں کی بہتات ہے تو کچھ علاقوں میں سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ مرتضیٰ زہری بلوچستان کے علاقے ڈیرہ الہٰ یار کی صورتِ حال بتا رہے ہیں جہاں اسپتال میں روز سانپ کے ڈسے ہوئے مریض لائے جا رہے ہیں۔
نصیر آباد، جعفر آباد اور ڈیرہ الہٰ یار کے علاقوں کو بلوچستان کی گرین بیلٹ کہا جاتا ہے۔ سیلاب نے ان علاقوں میں کتنی تباہی مچائی ہے اور لوگوں کے کیا نقصانات ہوئے ہیں؟ جانتے ہیں مرتضیٰ زہری سے۔
بلوچستان کا دیگر صوبوں سے رابطہ منقطع ہونے کی وجہ سے متعدد علاقوں میں اشیا خور و نوش کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ حکام دیگر صوبوں سے زمینی رابطہ عارضی طور پر بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں البتہ اب تک مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت بحال نہیں ہو سکی ہے۔
بلوچستان میں سیلاب سے 34 اضلاع شدید متاثر ہوئے ہیں۔ رواں مون سون سیزن میں 200 سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ایک طرف جہاں شہریوں کا بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے وہیں صوبے میں انفراسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ بلوچستان کی صورتِ حال بتا رہے ہیں مرتضیٰ زہری اس رپورٹ میں۔
بلوچستان میں مجموعی طور پر 26 ہزار سے زائد مکانات کو مکمل یا جزوی نقصان پہنچا ہے جب کہ بارشوں سے 710 کلو میٹر پر مشتمل شاہراہیں متاثر ہوئی ہیں اور سیلاب کے باعث 18 پل بھی ٹوٹ گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بارشوں سے 1 لاکھ 7 ہزار سے زائد مویشی بھی مارے گئے ہیں۔
بلوچستان میں مون سون کے چوتھے سیزن نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بارشوں اور سیلابی ریلوں سے بارکھان، کوہلو، موسیٰ خیل، قلعہ عبداللہ اور نوشکی کے علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ تفصیلات مرتضیٰ زہری کی رپورٹ میں۔
بلوچستان کے ضلع ہرنائی میں سیکیورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے مقامی رہنما کی موت کے خلاف دھرنا دوسرے روز بھی جاری ہے جب کہ مظاہرین لاش کے ہمراہ احتجاج کر رہے ہیں۔
پی ڈی ایم اے بلوچستان کےشعبہ ایمرجنسی سیل کے انچارج محمد اسلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں ریسکیو اور ریلیف کا کام جاری ہے اور پی ڈی ایم اے کے رضا کار ضلعی انتظامیہ کے ہمراہ متاثرہ علاقوں میں موجود ہیں۔
بلوچستان میں مون سون کی حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔متاثرین کی امداد کے لیے کئی مقامات پر خیمہ بستیاں قائم ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ کیمپوں سے ان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ متاثرہ لوگوں کے لیے خصوصی پیکج کا اعلان کیا جائے۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ
بلوچستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مون سون بارشوں اور سیلاب سے اب تک 136 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ صوبے میں سب سے زیادہ تباہی لسبیلہ میں ہوئی ہے۔
بلوچستان حکومت نے زیارت واقعہ کی تحقیقات کے لیے بدھ کو جوڈیشل کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن میں نو افراد مارے گئے تھے جن میں سے پانچ کی شناخت لاپتا افراد کے طور پر کی گئی تھی۔
پی ڈی ایم اے ذرائع کا کہنا ہے حالیہ مون سون بارشوں اور سیلاب کے باعث بلوچستان میں ہلاکتوں کی تعداد 111 ہو گئی ہے۔
بلوچستان میں مون سون کا حالیہ سیزن ہلاکت خیز ثابت ہورہا ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان کے 15 اضلاع میں 108 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جب کہ مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ حال ہی میں ضلع لسبیلہ میں سیلابی ریلے نے تباہی مچائی ہے جس سے کراچی اور بلوچستان کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہوگیا ہے۔ مرتضیٰ زہری کی رپورٹ۔
حب ڈیم کے اسپل ویز سے پانی کا غیرمعمولی اخراج جاری ہے جس سے حب ندی میں سیلابی صورتَ حال پیدا ہو گئی ہے اور علاقے میں فلڈ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
زیارت میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد کوئٹہ میں گزشتہ پانچ روز سے لاپتا افراد کے لواحقین کا دھرنا جاری ہے۔دھرنے کے شرکا نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیارت کے واقعے کے بعد دیگر لاپتا کیے گئے افراد کے لواحقین کو اپنے پیاروں کی زندگی سے متعلق خدشات لاحق ہوگئے ہیں۔
مزید لوڈ کریں