ماہرین کا کہنا ہے کہ ای وی ایم اور سمندر پار پاکستانیوں کے حوالے سے گزشتہ حکومت کی گئی قانون سازی قابل عمل نہیں تھی لہذا آئندہ انتخابات پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔
وفاقی وزیر خورشید شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکومت میں شامل جماعتیں چاہتی تھیں کہ انتخابی اصلاحات کے بعد رواں سال اکتوبر یا نومبر میں نئے انتخابات کرائے جائیں لیکن عمران خان کی قبل از وقت انتخابات کی دھمکی کے بعد اس فیصلے کو ترک کیا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان کے مطالبے پر انتخابات قبل از وقت نہیں کرائیں گے لیکن اگر فوج اقتدار میں آنا چاہتی ہے تو ہم بلا رکاوٹ حکومت چھوڑنے کو تیار ہیں۔ خورشید شاہ کا انٹرویو دیکھیے وائس آف امریکہ کے علی فرقان کے ساتھ۔
پی ایف یو جے کا کہنا ہے کہ سابق حکومت کے دور میں صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی وجہ سے آزادیٔ صحافت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی تنزلی ہوئی اور حالیہ واقعات آزادی اظہار سے متعلق ملک کے تاثر کو مزید خراب کرنے کا باعث بنیں گے۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر حکومت کو آئی ایم ایف سے مالی مدد مل جاتی ہے اور وہ انتظامی صورت حال میں بہتری اور مہنگائی پر کسی حد تک قابو پالیتی ہے تو پھر اسے اپنی مدت مکمل کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
پاکستان کی حکومت پیٹرول کی قیمت کم رکھنے کے لیے ہر ماہ سو ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے تاہم عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب اسے برقرار رکھنا حکومت کی معاشی مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی قیادت کی دعوت پر پاکستان کے سیاسی و عسکری قائدین کے دورے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے الگ الگ بیانات میں حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کی شقوں کے تحت درج مقدمات واپس لیے جائیں۔
شیخ رشید کے مطابق تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ کا مقصد ملک میں مارشل لاء کا نفاذ نہیں بلکہ اس کا مقصد جلد انتخابات کا اعلان ہے جب کہ فوج ملک میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رکھنا چاہتی ہے اور اسے قائم رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات کرائے جائے بصورتِ دیگر نہ ہم رہیں گے اور نہ حکومت۔
پاکستان کے سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ وہ فوج سے صلح کے حامی ہیں اور اس کی کوششیں بھی کریں گے۔ لیکن اگر لڑائی ہوئی تو عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ان کے بقول اگر عمران خان کی کال پر لوگ اسلام آباد آ گئے تو پھر ہم الیکشن کی تاریخ لیے بغیر نہیں جائیں گے۔ یا ہماری سیاست چھا جائے گی یا غرق ہو جائے گی۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر شیخ رشید کا انٹرویو دیکھیے وائس آف امریکہ کے علی فرقان کے ساتھ۔
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ دباؤ کا استعمال اس قسم کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ایک خوشحال، پڑھے لکھے خاندان کی خاتون جو کہ دو بچوں کی ماں بھی ہے اس نہج پر کیونکر پہنچی
تحریکِ انصاف کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف احتجاج ایسے وقت میں کیا جارہا ہے کہ جب الیکشن کمیشن بدھ سے تحریک انصاف کے غیر ملکی فنڈنگ کیس کی دوبارہ سے سماعت کرنے جارہا ہے۔
پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد اب یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا نئی حکومت اپنے روایتی حریف بھارت اور پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرسکے گی اور خطے کے بدلتے ہوئے حالات میں چین کے ساتھ دیرینہ تعلقات کو برقرار رکھنا کتنا مشکل ہوگا؟
وزیرِ اعظم نے گزشتہ دونوں ہی پنجاب کے گورنر کو ہٹانے کی سمری صدر عارف علوی کو ارسال کی تھی جسے صدر علوی نے تاحال زیرِ غور رکھا ہوا ہے۔ صدر کے اس اقدام کے باعث نو منتخب وزیر اعلی کی حلف برداری توالت کا شکار ہے اور صوبے میں سیاسی ہیجان تھمنے کو نہیں آرہا۔
پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کو کابینہ بنانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ رواں ہفتے جمعے کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت مکمل ہونے کے باوجود یہ عمل دوبارہ سے تعطل کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت کے سربراہ ہیں اس لیے کابینہ میں ان کی شمولیت پارٹی کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے افراد اور مبصرین نے امریکہ کی محکمۂ خارجہ کی رپورٹ کو زمینی حقائق کے قریب قرار دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا ہے کہ رپورٹ میں سامنے لائے گئے مسائل کے تدارک پر کام کیا جانا چاہیے۔
مبصرین صدر عارف علوی اور آرمی چیف کی تقریب میں عدم شرکت کو ایک غیر روایتی طرز عمل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو کہ سیاست میں حالیہ کشیدگی کی سنگینی کو ظاہر کرتی ہے۔
صبح ساڑھے دس بجے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس چار بار معطل کیا گیا اور حزب اختلاف کے بار بار اصرار کے باوجود رات گیارہ بجے تک عدم اعتماد کی قرارداد پر کارروائی کا آغاز نہ ہوسکا۔
مزید لوڈ کریں