Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
ایف سی کی دو گاڑیاں اہلکاروں کے لیے راشن لے کر جا رہی تھیں کہ گلنگور کے مقام پر سڑک میں نصب بم سے انھیں نشانہ بنایا گیا۔
ہنگامہ آرائی کے خدشات کے پیش نظر تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں حاضری بھی کافی کم ہے۔ البتہ کوئٹہ کے نواحی علاقوں عالمو چوک، سریاب روڈ، بروری اور سٹیلائٹ ٹاؤن میں جزوی ہڑتال کی جا رہی ہے۔
کوئٹہ میں اسپینی روڈ سے گزرنے والی ایک گاڑی پر خودکارہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کی گئی اور اس کا نشانہ بننے والوں کا تعلق اقلیتی ہزارہ برادری سے بتایا گیا ہے۔
یومِ پاکستان سے قبل پولیس نے کوئٹہ کے مضافاتی علاقوں سے 100 سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔
افراسیاب خٹک نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ اس وقت بلوچستان میں سب سے سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے صوبے میں صورت حال خراب ہو رہی ہے۔
تعمیراتی منصوبے پر کام کرنے والے مزدور تربت جا رہے تھے جب نامعلوم مسلح افراد نے اُن کی گاڑیوں کو زبردستی روک لیا۔
موٹر سائیکل میں نصب کردہ بم میں اُس وقت ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دھماکا کیا گیا جب مقامی پولیس افسر غلام رسول کیچی کی گاڑی اس کے قریب سے گزر رہی تھی۔
درجن بھر افغان اہلکاروں نے ہفتہ کو علی الصباح سرحدی ضلع قلعہ سیف اللہ میں داخل ہو کر ایک گھر سے تین افراد کو حراست میں لے لیا تھا، جن میں سے دو کو مبینہ طور پر ہلاک کر دیا گیا۔
گھات لگائے حملہ آوروں نے دھماکہ کرتے ہی گاڑیوں میں سوارفوجی اہلکاروں پر خودکار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ بھی شروع کردی جو ہلاکتوں میں اضافے کا باعث بنی۔
بلوچ قوم پرست سیاست دانوں کی اکثریت نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی تجویز کردہ کانفرنس کو صوبے کے مسائل اجاگر کرنے کے لیے ایک اچھا موقع قرار دیا ہے۔
مغوی ڈاکٹر کی بازیابی کے لیے شہر سے باہر جانے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کرنے کے بعد ہر گاڑی کی تلاشی لی جا رہی ہے.
پولیس حکام نے بتایا کہ کوئٹہ کے نواحی علاقوں میں چھاپے مار کر 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
خروٹ آباد میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کا پوسٹ مارٹم بھی ڈاکٹر باقر نے کیا تھا جس کے بعد پولیس انھیں حراساں کرتی رہی۔
اس ہوائی اڈے پر موجود درجنوں امریکی اہلکاروں اور اُن کے ساز و سامان بشمول ڈرون جہازوں کولے کرامریکہ کے خصوصی کارگو طیارے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔
یہ فیصلہ ان ٹینکروں پر کسی بھی ممکنہ دہشت گردانہ حملے کے پیش نظر کیا گیا۔
پاکستان کی جانب سے نیٹو کی سپلائی لائنز بند کرنے کے فیصلے کے بعد اتوار کو نویں روز بھی شمال مغربی طورخم اور جنوب مغربی چمن کی سرحد پر سینکڑوں ٹرک کھڑے ہیں۔
بدامنی کے شکار اضلاع سے گزرنے والی سڑکوں پر مقامی لیوز فورس کی چیک پوسٹوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ فورس کے گشت کو بھی بڑھایا جائے گا۔
ایک ایکڑ پر لگائے گئے زیتون کے پھل سے 500 لیٹر خوردنی تیل حاصل کیا جا سکتا ہے۔
صوبہ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سرگرم مشتبہ عسکریت پسند سڑک کے کنارے کھڑی گاڑیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں، جن میں کئی افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
سرکاری قافلے پر کیے گئے تازہ حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں فرنٹیئر کور کے اہلکار اور مقامی امن لشکر کے ارکان شامل ہیں۔
مزید لوڈ کریں