Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
صوبائی وزیرداخلہ نے کہا کہ صوبے کے کسی بھی علاقے میں فوجی آپریشن نہیں ہو رہا البتہ صوبے کے جس علاقے میں بھی ایف سی پر حملہ کیا جاتا ہے وہاں عسکریت پسندوں کے خلاف بھر پور کارروائی کی جاتی ہے۔
حالیہ برسوں میں جنوبی صوبہ سندھ کی طرح یہاں سے بھی ہندوؤں کی نقل مکانی اور دیگر ملکوں کو منتقلی کی خبریں سامنے آتی رہی ہیں۔
جنوبی ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ کے علاقے وہیر میں قائم ایک چیک پوسٹ پر مسلح افراد نے جدید خودکار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔
زیارت ریذیڈنسی کو گزشتہ سال جون میں بلوچ عسکریت پسندوں نے بم حملہ کرکے تباہ کر دیا تھا۔
ضلع جھل مگسی میں ماچھی اور پیچوہا قبیلے کے درمیان ہونے والی لڑائی سے مرنے والوں میں دو بچے اور دو خواتین بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق اس مسلح جھڑپ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سمیت 11 افراد زخمی ہوئے۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب حالیہ دنوں میں حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں۔
کوئٹہ سے راولپنڈی جانے والے جعفر ایکسپریس جیسے ہی سبی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی تو اس کی ایک بوگی میں زوردار دھماکا ہوا۔
یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب صوبے میں فوج کے سربراہ نے امن کی بحالی کے لیے مربوط کوششیں جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
گرلزکالج کو ئٹہ میں لڑکیوں کے لئے مختلف کھیلوں کے مقابلے کا انعقاد کرنے والی آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اقبال نے بتایا کہ ان مقابلوں سے بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
صوبائی حکومت کی طرف سے عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے مختلف میلوں اور تقریبات کا انعقاد بھی کیا جا رہا تاکہ خوفزدہ عوام کو صحت مندانہ سرگرمیاں مہیا ہو سکیں۔
درجہ حرارت میں کمی کے ساتھ بڑھتی ہوئی سردی ان خیموں میں مقیم زلزلہ متاثرین کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ قوم پرست جماعتوں کی طرف سے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے علاوہ اس موقع پر امن و امان کی بہتر صورتحال بھی صوبے کے لوگوں کے جمہوری عمل پر اعتماد کی عکاسی کرتی ہے۔
اغوا کار ڈاکٹر مناف کو لسبیلہ کے علاقے اوتھل میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ ان کی رہائی کے باوجود بلوچستان میں ڈاکٹروں نے اپنے تحفظ کی یقین دہانی تک ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے
وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم سردار رضا محمد بڑیچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ تعلیمی شعبے میں ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کی غیر حاضری ہے جس سے نمٹنے کے لیے حکومت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال عمل میں لانے پر غور کر رہی ہے۔
زخمیوں میں سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں جب کہ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کی وجہ سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹروں کی تنظیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایک ہفتے تک او پی ڈیز بند رہیں گی اور اُن کے بقول اگر حکومت نے ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو بازیاب نہیں کرایا تو احتجاج میں مزید شدت لائی جائےگی۔
صوبائی الیکشن کمشنر سلطان بایزید نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے صوبہ بھر میں اہل ووٹروں کی تعداد تقریباً 33 لاکھ ہے اور 7,189 حلقوں میں انتخابات ہوں گے۔
ہلاک ہونے والوں میں تین خواتین اور دو کم سن بچے بھی شامل ہیں جب کہ ایک معمر خاتون شدید زخمی ہوئی ہیں۔
اس سے قبل کوئٹہ سے گزشتہ ماہ اغوا ہونے والے معروف سرجن ڈاکٹر عبدالمناف ترین کو تاحال بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے
مزید لوڈ کریں