Abdul Sattar Kakar reports for VOA Urdu Web from Quetta
بلوچستان میں رواں ہفتے کے دوران یہ دوسرا بم دھماکا تھا، اس سے قبل بدھ کو صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک مسافر بس میں دھماکے سے 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
چودھری نثار علی خان نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ کچھ لوگ ملک میں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتے اور ان کے بقول جو لوگ بلوچستان میں فساد برپا کر رہے ہیں ان کے پیچھے پاکستان دشمن قوتیں ہیں۔
صوبائی وزیر صحت رحمت اللہ بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک مسودہ قانون تیار کیا گیا ہے جس میں ایسے والدین جو اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے سے انکار کریں گے ان کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے
اللہ نذر کی تنظیم آواران اور مکران کے علاقے میں سرگرم ہے جہاں یہ سکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں کے علاوہ دیگر صوبوں سے مزدوری کے لیے آنے والوں کے اغوا اور قتل کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہے۔
حکام نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر 500 کلومیٹر کے علاقے میں آٹھ فٹ چوڑی اور دس فٹ گہری خندق کھو دی گئی جس کی بدولت اب اس سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت اور اسلحہ و منشیات کی اسمگلنگ پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔
حملہ آور فرار ہوتے ہوئے ایک انجینیئرمحمد اللہ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے جسے بعد میں انھوں نے قتل کر کے لاش جیوانی کے علاقے میں ہی پھینک دی۔
حکام کا کہنا تھا کہ مرنے والوں میں سے دو کا تعلق کوئٹہ اور ایک کا وزیرستان سے تھا جب کہ ایک کے بارے میں تاحال معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
جمعہ کو پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر ساڑھے چار سو سے زائد نوجوانوں نے مزاحمت کی راہ ترک کر کے ریاستی عملداری کو تسلیم کرنے اور آئندہ پرامن رہنے کا عزم کیا۔
بلوچی پاکستان کے علاوہ وسطی ایشائی ممالک، ایران اور خلیجی ممالک میں بھی بولی جاتی ہے۔
سابق وزیر اور ہندو برادری کے ایک سرگرم رہنما بسنت لال گلشن کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کی برادری کے لوگوں کی نقل مکانی کا سلسلہ اب ختم ہو گیا ہے۔
ہزارہ ٹاون کے باہر لگے ناکے پر کھڑے چوکیدار نے حملہ آور کو روکا تو اس نے اپنے جسم پر بندھے بارودی مواد میں دھماکا کر دیا۔
بلوچستان میں حزب مخالف نے بجٹ کو عوام کے خلاف قرار دیتے ہوئے بجٹ اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
حالیہ مہینوں میں صوبے میں پیش آنے والے تشدد کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات سے حوصلے پست نہیں ہوں گے اور دہشت گردوں کو پوری طرح ختم کیا جائے گا۔
کوئٹہ کے علاوہ صوبے کے دیگر اضلاع مستونگ، چاغی اور بولان میں بھی شیعہ ہزارہ برادری کے لوگ آباد ہیں جن پر ماضی میں بھی ہلاکت خیز حملے ہوتے رہے ہیں۔
اُدھر ضلع پشین سے عبدالغفار کاکڑ نامی ایک ڈاکٹر کو نامعلو م افراد نے دفتر سے گھر جاتے ہو ئے اغوا کر لیا ہے جن کی بازیابی کے لیے پولیس نے کارروائی شروع کردی ہے۔
فوج کی سدرن کمانڈر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ فوج بلوچستان سمیت پورے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے اور عوام کے درمیان پیدا کی گئی تفریق کو بھی ختم کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے بہت سے طالبان شدت پسند فرار ہو کر بلوچستان کے شمال مشرقی اضلاع میں روپوش ہیں جن کے خلاف فورسز کارروائی کر رہی ہے۔
انھوں نے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک ان کے حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔
لیویز کے افسر سید محمد نے بتایا کہ یہ لاشیں ژوب اور لورالائی کے درمیان سے برآمد ہوئی ہیں اور ان کے بقول غالباً ان افراد کو یہیں سے اغوا کیا گیا تھا۔
ادھر شمالی ضلع ژوب میں انسداد پولیو ٹیم میں شامل پانچ افراد لاپتا ہو گئے ہیں جن کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ انھیں شدت پسندوں نے اغوا کر لیا ہے۔
مزید لوڈ کریں