سی پیک چین کے عالمی سطح پر جاری ’بیلٹ اینڈ روڈ‘ منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کو زمینی راستے سے گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرنا ہے جس سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی حاصل ہونے میں آسانی ہو گی۔
کثیرالاقومی شدت پسند تنظیموں پر کام کرنے والے اسلام آباد میں ایک انٹیلی جینس افسر کا کہناہے کہ جب مذہبی اقلیتیں نشانہ ہوتی ہیں تو یہ عالمی طور پر ایک خبر بنتی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کو نشانہ بنانا بھی اسی قسم کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب کسی بلوچ خاتون خود کش حملہ آور نے کوئی کارروائی کی ہو۔ گزشتہ برس اپریل میں کراچی یونیورسٹی میں شاری بلوچ نامی خاتون خود کش حملہ آور نے چینی اساتذہ کی وین کے قریب خود کو اُڑا لیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
جماعت اسلامی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤںٹ پر دھماکے کی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ جب سراج الحق کی گاڑی کے قریب کارکن جمع ہو رہے تھے تو اسی دوران اچانک دھماکا ہوتا ہے اور دھواں اٹھتا ہے جس کے بعد لوگ بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں کرم ایجنسی وہ پہلا علاقہ ہے جہاں پر سب سے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر سنی اور شیعہ آبادی کے درمیان بدترین لڑائیوں کی ابتدا ہوئی۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع ہے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔
پاکستان میں جہادی تنظیموں کے معاملات اورسرگرمیوں پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی سے جڑے جہادی گروہوں سے وابستہ افراد کی پاکستان میں ہلاکت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان میں ایک ایسے فوجی آپریشن کی بنیاد بنے گا جس کی باز گشت 50 برس گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کی جا رہی ہے۔
یوں تو کراچی میں کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں، پرتشدد سیاسی جماعتوں، جرائم پیشہ گروپس کئی دہاییوں سے فعال ہیں مگر ٹی ٹی پی نے 2009 کے وسط میں یہاں قدم جمائے۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں ٹی ٹی پی اوردیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ریموٹ کنٹرول دھماکے، آئی ای ڈیز، خود کش جیکٹس، کلاشنکوف سے فائرنگ اور بعض واقعات میں راکٹس کا استعمال کیا جاتارہاہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ 100 سے زائد نمازیوں کی ہلاکت کے بعد عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے کترا رہی ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ پاک ایران سرحد کی غیرمحفوظ ہونے کی کافی وجوہات ہیں جن میں دونوں ملکوں کے بلوچ مسلح گروہوں کی سرگرمیاں، سرحد کے دونوں طرف منقسم بلوچ آبادی، منشیات اور پیٹرول وڈیزل کی اسمگلنگ اورعوام میں وسیع عدم اطمینان شامل ہے۔
پاکستان میں بعض حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت جس کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ پاکستان نواز ہے کے ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور سرحدی کشیدگی پاکستانی حکام کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
سیکیورٹٰی اُمور کے ماہرین, قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا یہ دعویٰ درست ہے تو بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال کے حوالے سے ایک نیا چیلنج ہو گا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جولائی 2020 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد "براس" کی تشکیل کے سبب بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے باخبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں اور نئے شدت پسندوں کی شمولیت کے بعد تنظیم کا نیا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے بعد ان کے حملوں کی تعداد اور استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
داعش نے 12 دسمبر کو کابل کے اہم ترین علاقے شارع نو میں قائم دس منزلہ ہوٹل کو نشانہ بنایا تھا جس کےنتیجے میں پانچ چینی باشندوں سمیت 21 افراد زخمی ہوئے تھے۔
بدھ کو کوئٹہ کے علاقے بلبلی میں پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں کے ٹرک پر خود کش حملے میں ایک اہل کار ہلاک سمیت تین افراد ہلاک جب کہ 25 زخمی ہو گئے تھے۔ ٹی ٹی پی نے واقعے کے فوری بعد اس کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔
پختونخوا ملی پارٹی جسے پی کے میپ بھی کہا جاتا ہے، کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حالیہ دنوں میں پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں کو 'پارٹی لائن سے انحراف اور سازش' کے الزامات کے تحت پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس اقدام کے باعث پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
بی این اے نے رواں برس جنوری میں اپنے قیام کے چند روز بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرکے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
مظاہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اگر واقعی سوات میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی واپسی ہوئی ہے تو کس معاہدے کے تحت انہیں واپس آنے دیا گیا ہے؟
مزید لوڈ کریں