پاکستان میں جہادی تنظیموں کے معاملات اورسرگرمیوں پرگہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہناہے کہ بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندی سے جڑے جہادی گروہوں سے وابستہ افراد کی پاکستان میں ہلاکت ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
بہت کم لوگوں کو اندازہ تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان میں ایک ایسے فوجی آپریشن کی بنیاد بنے گا جس کی باز گشت 50 برس گزرنے کے باوجود آج بھی محسوس کی جا رہی ہے۔
یوں تو کراچی میں کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں، پرتشدد سیاسی جماعتوں، جرائم پیشہ گروپس کئی دہاییوں سے فعال ہیں مگر ٹی ٹی پی نے 2009 کے وسط میں یہاں قدم جمائے۔
پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں میں ٹی ٹی پی اوردیگر شدت پسند تنظیموں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ریموٹ کنٹرول دھماکے، آئی ای ڈیز، خود کش جیکٹس، کلاشنکوف سے فائرنگ اور بعض واقعات میں راکٹس کا استعمال کیا جاتارہاہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ 100 سے زائد نمازیوں کی ہلاکت کے بعد عوامی سطح پر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹی ٹی پی اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے سے کترا رہی ہے۔
ماہرین کاکہناہے کہ پاک ایران سرحد کی غیرمحفوظ ہونے کی کافی وجوہات ہیں جن میں دونوں ملکوں کے بلوچ مسلح گروہوں کی سرگرمیاں، سرحد کے دونوں طرف منقسم بلوچ آبادی، منشیات اور پیٹرول وڈیزل کی اسمگلنگ اورعوام میں وسیع عدم اطمینان شامل ہے۔
پاکستان میں بعض حلقے یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ افغانستان میں طالبان حکومت جس کے بارے میں یہ گمان تھا کہ وہ پاکستان نواز ہے کے ہوتے ہوئے بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ اور سرحدی کشیدگی پاکستانی حکام کے لیے ایک نیا امتحان ہے۔
سیکیورٹٰی اُمور کے ماہرین, قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا یہ دعویٰ درست ہے تو بلوچستان میں امن و امان کی صورتِ حال کے حوالے سے ایک نیا چیلنج ہو گا۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جولائی 2020 میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے اتحاد "براس" کی تشکیل کے سبب بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات سے باخبر ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ٹی ٹی پی میں ناراض دھڑوں اور نئے شدت پسندوں کی شمولیت کے بعد تنظیم کا نیا ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے بعد ان کے حملوں کی تعداد اور استعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
داعش نے 12 دسمبر کو کابل کے اہم ترین علاقے شارع نو میں قائم دس منزلہ ہوٹل کو نشانہ بنایا تھا جس کےنتیجے میں پانچ چینی باشندوں سمیت 21 افراد زخمی ہوئے تھے۔
بدھ کو کوئٹہ کے علاقے بلبلی میں پولیو ٹیموں کی سیکیورٹی پر مامور پولیس اہل کاروں کے ٹرک پر خود کش حملے میں ایک اہل کار ہلاک سمیت تین افراد ہلاک جب کہ 25 زخمی ہو گئے تھے۔ ٹی ٹی پی نے واقعے کے فوری بعد اس کی ذمے داری قبول کر لی تھی۔
پختونخوا ملی پارٹی جسے پی کے میپ بھی کہا جاتا ہے، کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حالیہ دنوں میں پارٹی کے متعدد اہم رہنماؤں کو 'پارٹی لائن سے انحراف اور سازش' کے الزامات کے تحت پارٹی سے نکال دیا تھا۔ اس اقدام کے باعث پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
بی این اے نے رواں برس جنوری میں اپنے قیام کے چند روز بعد ہی لاہور کے انار کلی بازار میں بم دھماکے کی ذمے داری قبول کرکے اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا تھا۔
مظاہرین یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اگر واقعی سوات میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی واپسی ہوئی ہے تو کس معاہدے کے تحت انہیں واپس آنے دیا گیا ہے؟
جوہی کے گردونواح میں کئی علاقے جزیروں میں تبدیلی ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں چلنے والی ویگن سروس اورچنگچی رکشوں کی جگہ کشتیوں نے لے لی ہے۔
ماہرین کے مطابق ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں بے یقینی بڑھے گی کیوں کہ داعش خراسان شدت سے یہ پراپیگنڈا کررہی ہے کہ طالبان حکومت الظواہری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے یا طالبان اس حملے میں ملوث ہیں۔
دنیا کے کسی ملک نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کی قانونی حیثیت اب تک تسلیم نہیں کی۔ ان حالات میں طالبان چین کی سرمایہ کاری اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں۔
ماہرین کے مطابق افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی کارروائیوں میں اضافہ کیا بلکہ اُنہیں یہ اعتماد بھی ملا ہے کہ جس طرح افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ معاملہ کیا، اسی طرح وہ بھی حکومتِ پاکستان کو مجبور کر سکتے ہیں۔
صحافی اسد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مکران ڈویژن میں ماضی کے انتخابات میں لوگوں کا انتخابی عمل میں حصہ لینے کا تناسب کافی کم تھا مگر اس مرتبہ اس ٹرن آؤٹ میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
مزید لوڈ کریں