ضمنی انتخابات میں جہاں مقامی ووٹرز کی دلچسپی دیکھنے میں آئی وہیں کچھ پاکستانی نژاد غیر ملکی ووٹرز سے بھی ملاقات ہوئی۔ اِنہی میں سے ایک ابرار احمد ہیں جن سے ٹاؤن شپ میں گرلز ہائی اسکول میں بنائے گئے پولنگ اسٹیشن میں ایک ووٹر سے ملاقات ہوئی۔
پنجاب کے 14 اضلاع میں ہونے والی پولنگ کا عمل شام پانچ بجے تک بلاتعطل جاری رہے گا۔ انتخابی حلقوں میں امن و امان کی صورتِ حال کو برقراررکھنے کے لیے پولیس، رینجرز اور آرمی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ضمنی انتخابات کے نتائج ملک بھر میں اور خاص طور پر پنجاب میں تمام تر سیاسی صورتِ حال کو تبدیل کرسکتے ہیں۔
صوبے میں ان ضمنی انتخابات کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات میں سخت مقابلے دیکھنے کو ملیں گے۔ جس کے باعث ووٹ ڈالنے کی شرح یعنی ٹرن آؤٹ بھی ٹھیک ہوگا۔
ان انتخابات کے نتائج سے یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ پنجاب میں وزارتِ اعلٰی کا منصب حمزہ شہباز کے پاس رہے گا یا یہ تحریکِ انصاف کے وزارتِ اعلٰی کے اُمیدوار چوہدری پرویز الہٰی کی جھولی میں جا گرے گا۔
پنجاب حکومت کے 100 یونٹس بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو مفت بجلی دینے کے فیصلے کو جہاں سراہا جا رہا ہے، وہی اِس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔ توانائی کے بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ ایک اچھا امر ہے لیکن اِس کے نتیجے میں صوبائی حکومت پر محاصلات کا دباو بڑھ جائے گا۔
پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر 17 جولائی کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے لیے مسلم لیگ (ن) اور سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے سیاسی مہم کو مزید تیز کر دیا ہے۔
اویس منیر بھلر جامعہ پنجاب کے شعبہ ابلاغ عامہ کے چھٹے سیمسٹر کے طالب علم ہیں۔ وہ خود انٹرنیٹ پر 'پب جی' اور دیگر ویڈیو اور ڈیجیٹل گیمز کھیلتے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ ان گیمز کو کھیلنے والا دماغی طور پر اس میں اتنا ملوث ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے آس پاس کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
مسلم لیگ (ن) پرامید ہے کہ وزارتِ اعلیٰ کے لیے ان کے امیدوار حمزہ شہباز کو مخالف امیدوار چوہدری پرویز الہیٰ پر اکثریت حاصل ہے۔ تاہم پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ہونے والے انتخاب کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی 20 نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات اس بات کا بھی فیصلہ کریں گے حمزہ شہباز بطور وزیراعلٰی پنجاب رہتے ہیں یا ایک مرتبہ پھر سے پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف کی نشست پر بیٹھیں گے۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ اداروں پر تنقید کوئی نئی بات نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اِس میں مزید شدت آ سکتی ہے۔ بہتر ہو گا کہ اِس طرح کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھایا جائے۔
وزیر خزانہ اویس لغاری نے 32 کھرب 26 ارب روپے حجم کا بجٹ پیش کیا۔ جس میں آئندہ مالی سال کیلئے صوبے کی آمدنی کا تخمینہ 25 کھرب 21 ارب29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔ جس میں آمدن کا کل تخمینہ 2521 ارب 29 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں اور اسپیکر کا مطالبہ تھا کہ آئی جی پنجاب اور چیف سیکرٹری کو اسمبلی میں طلب کیا جائے۔ دوسری جانب حکومتی جماعت ایسا کرنے سے گریزاں تھی۔ دن بھر حکومت اور اسپیکر کے درمیان مذاکرات کی خبریں آتی رہیں، لیکن مسئلے کا حل نہ نکل سکا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی کی زیر صدارت پنجاب اسمبلی کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو آئی جی پنجاب پولیس اور چیف سیکرٹری اسمبلی گیلری میں موجود نہیں تھے۔ جس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ دونوں افسران کو اسمبلی میں طلب کیا جائے بصورتِ دیگر وہ بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں سینئر وزیر کے علاوہ محکمۂ خزانہ سمیت دیگر اہم وزارتیں حاصل کرنا چاہتی ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کی نظریں بھی ان وزارتوں پر ہیں۔
مبصرین کے مطابق گورنر پنجاب کی تعیناتی اور صوبائی کابینہ کے آنے سے صوبے کی سیاست میں جاری کشمکش میں قدرے ٹھہراؤ آئے گا۔ ان کے خیال میں مخالف سیاسی جماعتیں پنجاب کے وزیرِاعلیٰ کے دوبارہ چناؤ کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اور خالی ہونے والی نشستوں پر ضمنی انتخاب کے بعد کرسکتی ہیں۔
سہیل وڑائچ کے بقول تحریکِ انصاف یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے پورے ملک میں احتجاج اور دھرنے کا سماع باندھ دیا تھا اور جگہ جگہ احتجاج ہوئے، جب کہ حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے تحریکِ انصاف کا مقصد پورا نہیں ہونے دیا۔ لہذٰا دونوں کا میچ برابر رہا۔
مبصرین کے خیال میں بروقت سیاسی فیصلے نہ ہونے کے باعث صوبے میں مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اوراداروں میں بے یقینی کی سی کیفیت ہے۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں نمبر گیم بہت دلچسپ ہو گئی ہے جس سے آزاد ارکان اور سینئر سیاست دان چوہدری نثار علی خان کا ووٹ بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
مزید لوڈ کریں