رسائی کے لنکس

پنجاب کابینہ: 'مسلم لیگ (ن) اہم وزارتیں پیپلزپارٹی کو نہیں دینا چاہتی'


کابینہ کی تشکیل میں اختلافات کی قیاس آرائیوں کے بعد وزیرِ اعلٰی حمزہ شہباز نے سابق صدر آصف زرداری سے لاہور میں ملاقات کی تھی۔
کابینہ کی تشکیل میں اختلافات کی قیاس آرائیوں کے بعد وزیرِ اعلٰی حمزہ شہباز نے سابق صدر آصف زرداری سے لاہور میں ملاقات کی تھی۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کابینہ کی تشکیل میں حکمراں اتحاد مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) میں اختلافات کی قیاس آرائیوں کے بعد وزیرِ اعلٰی پنجاب حمزہ شہباز اور سابق صدر آصف علی زرداری نے حال ہی میں ملاقات کی تھی۔ فریقین نے معاملات حل ہونے کے دعوے کیے ہیں تاہم بعض تجزیہ کاروں کے مطابق اب بھی دونوں جماعتوں کے درمیان بداعتمادی کی فضا برقرار ہے۔

بلاول ہاؤس لاہور میں منگل کو ہونے والی ملاقات میں حمزہ شہباز اور آصف علی زرداری نے پنجاب کابینہ کی تشکیل میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے تحفظات پر تبادلۂ خیال کیا تھا۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں سینئر وزیر کے علاوہ محکمۂ خزانہ سمیت دیگر اہم وزارتیں حاصل کرنا چاہتی ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے کئی رہنماؤں کی نظریں بھی ان وزارتوں پر ہیں۔

ذرائع کے مطابق اِس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) سردار اویس لغاری جب کہ پیپلزپارٹی سید حسن مرتضٰی کو سینئر وزیر بنانا چاہتی ہے۔ پنجاب کی موجودہ آٹھ رکنی کابینہ میں دو اراکین کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ قلم دان نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر فعال ہیں۔

'ضمنی انتخاب مل کر لڑنے پر اتفاق ہوا ہے'

آصف زرداری اور حمزہ شہباز کی ملاقات کے حوالے سے کوئی اعلامیہ تو جاری نہیں کیا گیا، تاہم ملاقات میں شریک پیپلزپارٹی کے اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ فریقین کے درمیان معاملات میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے حمزہ شہباز کو تجویز دی ہے کہ وہ پنجاب میں تحریکِ انصاف کی سابق حکومت کی 'نااہلیوں' کو اُجاگر کریں۔ ملاقات میں آصف زرداری نے پنجاب کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں بھی مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں پہلی مرتبہ 20 نشستوں پر بیک وقت ضمنی انتخابات ہوں گے جس کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف بھی تیاری کر رہی ہے۔

وزیرِ اعلیٰ حمزہ شہباز تحریکِ انصاف کے 25 منحرف اراکین کی حمایت کے ساتھ 197 ووٹ لے کر پنجاب کے وزیرِ اعلٰی منتخب ہوئے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر ان اراکین کو ڈی سیٹ کر دیا تھا۔

پیپلزپارٹی کے رہنما نے یہ بھی بتایا کہ ڈی سیٹ ہونے والے ارکان طے شدہ فارمولے کے مطابق شیر کے نشان پر الیکشن لڑ رہے ہیں اور انہیں کامیاب کرانے میں پیپلز پارٹی بھرپور کردار ادا کرے گی۔ اِس سلسلے میں تمام اتحادی جماعتیں کوشش کریں گی کہ دوبارہ انہی حلقوں سے ان تمام اراکین کو کامیاب کرایا جائے۔

رکن پنجاب اسمبلی نے مزید بتایا کہ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ اگر دونوں جماعتوں کو کسی بھی جگہ کسی بھی مسئلے پر تحفظات ہوں تو انہیں فوری طور پر حل کرنے کے لیے مشاورت کی جائے تا کہ بداعتمادی کا موقع نہ مل سکے۔

اُنہوں نے مزید کہا کہ رواں ہفتے نہ صرف پیپلز پارٹی کے حلف اٹھانے والے وزرا کو محکمے دے دیے جائیں گے بلکہ باقی نامزد وزرا بھی اسی ہفتے یا آئندہ ہفتے حلف لے لیں گے۔

ملاقات کے بعد وزیراعلٰی دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز سے شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کی ملاقات میں ضمنی انتخابات مل کر لڑنے پر اتفاق ہوا ہے۔

وائس آف امریکہ نے اِس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ملاقات میں شریک رکن صوبائی اسمبلی سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے مختصراً کہا کہ بہت جلد تمام معاملات حل ہو جائیں گے۔

یاد رہے اِس سے قبل بھی دونوں جماعتوں کے درمیان 2008 میں وفاقی سطح اور پنجاب کی سطح پر اتحاد ہوا تھا۔ وفاق کی سطح پر ہونے والا اتحاد تو دو ماہ بعد ہی ختم ہو گیا تھا، البتہ پنجاب کا اتحاد دو برس سے زائد رہا۔

'وفاق کی طرح پنجاب میں بھی مسلم لیگ (ن) کی مشکلات بڑھ رہی ہیں'

سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ پنجاب کی سیاسی صورتِ حال پر نظر دورائی جائے تو مسلم لیگ (ن) کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں جو وقت کے ساتھ مزید بڑھنے کا امکان ہے جس کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہو سکتا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں تنِ تنہا حکومت بناتی رہی ہے، لیکن اس مرتبہ پیپلزپارٹی بھی اتحادی حکومت میں شامل ہے۔ لہذٰا پنجاب میں سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود اُنہیں اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑ رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ کابینہ کی تشکیل اور اتحادیوں کے مطالبات کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) پنجاب کی سب سے بڑی جماعت ہے اور بہت سے رہنما پیپلزپارٹی کو اچھی وزارتیں دینے پر تحفظات رکھتے ہیں۔ سلمان غنی کہتے ہیں کہ بہت سے رہنما یہ بھی چاہتے ہیں کہ فوری انتخابات ہو جائیں تاکہ نئے مینڈیٹ کے ساتھ کھل کر حکومت کی جا سکے۔ '

خیال رہے کہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کے سات اراکینِ پنجاب اسمبلی ہیں۔

'پیپلزپارٹی پنجاب کی سیاست میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے'

پنجاب میں پیپلزپارٹی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار خالد قیوم سمجھتے ہیں کہ دونوں جماعتوں کا مفاد اسی میں ہے کہ پنجاب میں یہ اتحاد چلے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے خالد قیوم کا کہنا تھا کہ کافی عرصے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کو حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا ہے۔ لہذٰا بطور جماعت وہ اس موقع کا فائدہ اُٹھا کر پنجاب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے۔

اُن کے بقول پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک مقبول جماعت تھی، لیکن پھر مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی کی برتری ختم کی۔ لہذٰا (ن) لیگ کو بھی یہی بہتر لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں مضبوط ہو تاکہ تحریکِ انصاف کا زور ٹوٹے۔

XS
SM
MD
LG