طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے کہا ہے کہ ان افراد کو گزشتہ دنوں خیبر ایجنسی کی وادی تیرہ میں ہونے والی فوجی کارروائی کے انتقام میں قتل کیا گیا ہے۔
پولیس حکام نے بتایا کہ دھماکا ایک کمرشل پلازہ کے تہ خانے میں قائم انٹرنیٹ کیفے میں پہلے سے نصب بم پھٹنے سے ہوا۔
حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی بنوں کوہاٹ روڈ پر فرنٹیئر کور ’ایف سی‘ کے ایک قلعے سے ٹکرا دی جس سے قلعے کو شدید نقصان پہنچا۔
نیم فوجی فورس ’فرنٹیئر کور‘ کے پیش قدمی کرنے والے ایک دستے پر جدید اور بھاری ہتھیاروں سے مسلح عسکریت پسندوں نے گھات لگا کرحملہ کردیا۔
افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقے کرم ایجنسی میں ہفتہ کو شدت پسندوں نے سیکورٹی فورسز کے ایک قافلے کو بارودی سرنگ سے نشانہ بنایا۔
شلمان مہمند ایجنسی کی سرحد پر واقع ہے اور اطلاعات کے مطابق مسلح اغواء کار مہمند سے ہی اس علاقے میں داخل ہوئے تھے۔
تحصیل صافی سے نقل مکانی کرنے والے خاندان اب واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں اس لیے مقامی انتظامیہ نے تعلیمی اداروں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔
شمالی وزیرستان میں کیے گئے مبینہ امریکی میزائل حملے کا ہدف حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی ایک پناہ گاہ تھی۔
مقامی حکام نے بتایا کہ دو راکٹ جلسہ گاہ میں گرے تاہم گورنر مسعود کوثر اس حملے میں محفوظ رہے۔
گزشتہ چار سالوں کے دوران کرم ایجنسی میں پیش آنے والے پرتشدد واقعات میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
زیر تربیت پولیس اہلکار جڑوبہ سے ایبٹ آباد جا رہے تھے
کوئلے کی کان میں کام کرنے والے مزدوروں کا تعلق مالاکنڈ ڈویژن کے اضلاع سوات اور شانگلہ سے بتایا جاتا ہے۔
عسکریت پسندوں کے حملے کے فوراً بعد علاقے میں موجود سکیورٹی فورسز اور مقامی قبائلیوں نے جوابی کارروائی کر کے ایک حملہ آور کو ہلا ک کردیا۔
ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کا نشانہ بننے والی گاڑی میں حکومت کے حامی دو قبائلی رہنما سوار تھے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ طیارے کو یہ حادثہ فنی خرابی کے باعث پیش آیا, جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق طالبان شدت پسندوں نے ڈرون کا ملبہ اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔
ہسپتال ذرائع نے بعض زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتاتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتوں میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
حکومت کے حامی ایک قبائلی رہنما بخت سلطان کی نماز جنازہ ادا کی جارہی تھی جب یہ دھماکا ہوا۔
حساس ادارے کے اہلکار بنوں سے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان جا رہے تھے جب نامعلوم مسلح افراد نے جانی خیل کے قریب اُن کی گاڑی کو مختلف سمتوں سے نشانہ بنایا۔
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ چند برس قبل تک حکومت کو قبائلی رضا کاروں کی زیادہ ضرورت تھی، لیکن اب سرکاری پولیس کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھائی گئی ہے۔
یہ نوجوان پاک افغان سرحد پر واقع’غاخی پاس‘ کے سرسبز وشادات علاقے میں پکنک کے لیے گئے تھے کہ غلطی سے سرحد عبور کر کے افغانستان کے سرحدی علاقے میں داخل ہو گئے
مزید لوڈ کریں