صوبائی وزیراطلاعات شوکت علی یوسفزئی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب بھی 50 سے زائد افراد مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔
سوات میں کانجو پل میں دراڑیں پڑنے کی اطلاعات کے بعد انتظامیہ نے اس علاقے میں آباد مکینوں کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے اور احتیاط برتنے کی تنبیہ کی ہے۔
رزمک جانے والے فوجی قافلے میں شامل گاڑیوں کو دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنانے کے بعد شدت پسندوں نے اس پر راکٹ بھی داغے۔
ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کے بااثر کمانڈر ولی الرحمن کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں تاہم سرکاری طور پر اور طالبان کی طرف سے تاحال اس کی تصدیق سامنے نہیں آئی ہے۔
امن کمیٹی کے سربراہ میاں شیر علی عرف جاجا اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمرا ایک پولیس افسر کے جنازے میں شرکت کے لیے جارہے تھے کہ منگلور کےعلاقے میں ان کی گاڑی کو دیسی ساختہ ریموٹ کنڑول بم سے نشانہ بنایا گیا ۔
حکام کے مطابق پولیس کا ایک قافلہ پشاور سے کوہاٹ جا رہا تھا کہ صوبائی دارالحکومت کے مضافاتی علاقے متنی میں گھات لگائے دہشت گردوں نے خود کار ہتھیاروں سے اس پر فائرنگ شروع کر دی۔
ہنگو میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) گروپ کے اُمیدوار مفتی جانان کو ضلع ہنگو کی تحصیل دوآبہ کے بازار میں نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) کے اُمیدوار منیر خان اورکزئی کے انتخابی جلسے میں یہ دھماکا ہوا جس میں 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
وادی تیراہ میں شدت پسندوں کے خلاف گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ساتھ جوابی کارروائی میں 16 عسکریت پسند ہلاک ہوگئے جب کہ متعدد ٹھکانوں کو بھی تباہ کردیا گیا۔
سکیورٹی فورسز کے قافلے کو بنوں اور میران شاہ کے درمیان نیم قبائلی علاقے کجھوری میں دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔
عسکری ذرائع کے مطابق شمالی وزیرستان کے علاقے سید گئی میں سکیورٹی فورسز کی چوکی کو بارودی مواد سے نشانہ بنایا گیا۔
پولیس کے مطابق ایک آزاد اُمیدوار کے حامی گاڑی میں جا رہے تھے کہ موٹرسائیکل پر سوار مسلح افراد نے خودکار ہتھیاروں سے اُن پر فائرنگ شروع کر دی۔
دو مختلف بم دھماکوں میں عوامی نیشنل پارٹی کا ایک کارکن ہلاک اور ایک انتخابی امیدوار زخمی ہوگیا۔
لنڈی کوتل کے نواحی علاقے میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب سکیورٹی فورسز نے وہاں چھپے شدت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔
شدت پسندوں نے گرڈ اسٹیشن کے مختلف حصوں اور آلات کو نقصان پہنچایا جس سے پشاور اور گرد و نواح کے علاقے میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی۔ حکام کے مطابق اب بھی چار افراد لاپتہ ہیں۔
زخمیوں میں سابق رکن صوبائی اسمبلی عدنان وزیر بھی شامل ہیں جو کہ پہلے عوامی نیشنل پارٹی میں شامل تھے لیکن آئندہ انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق یہ دھماکا پشاور کے علاقے فخر عالم روڈ پر اس وقت ہوا جب فرنٹیئر کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ کی گاڑیوں کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔
دھماکا مہاجر بازار کے قریب ہوا اور اطلاعات کے مطابق قریب ہی راشن تقسیم کیا جا رہا تھا جہاں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے۔
خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ میں گزشتہ کئی دنوں سے متحارب گروہوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھر بار چھوڑ کر پشاور کی طرف نقل مکانی کررہے ہیں۔
سبکدوش ہونے والے صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخارحسین نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے حکومت کی پالیسیوں پر عمل درآمد جاری رہے گا۔
مزید لوڈ کریں