پشاور کے نواحی علاقے پخہ غلام سے تعلق رکھنے والی زینت بی بی اور افغانستان کے سرحدی صوبے کنڑ کے عرفان اللہ خان 2011 میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے مگر حکومتِ پاکستان کے اکتوبر 2023 کے فیصلے سے دونوں سخت پریشان تھے۔
فائرنگ سے بس بے قابو ہو کر سامنے سے آنے والے مال بردار ٹرک سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں لگنے والی آگ سے ٹرک کا اگلا حصہ مکمل طور جل گیا تھا جب کہ ٹرک کا ڈرائیور جھلس کر ہلاک ہوا۔ ہلاک ہونے والوں میں دو سیکیورٹی اہل کاروں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
ہلاک ہونے والوں میں دو سیکورٹی اہل کاروں کے علاوہ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
پولیس حکام کے بقول واقعے سے مبینہ تعلق کی بنا پر اب تک متعدد افراد گرفتار کیے گئے ہیں جب کہ دیگر کو گرفتار کرنے کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
ماضی میں بھی خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں بالخصوص ہزارہ ڈویژن کے مانسہرہ اور کوہستان کے اضلاع میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ صوبے میں پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کے باوجود اب بھی بہت سے رہنما پارٹی کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ صوبے میں پی ٹی آئی کا ووٹ بینک برقرار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 برسوں سے خیبرپختونخوا کی سیاست پی ٹی آئی کے اردگرد گھومتی رہی ہے۔ 2013 میں پارٹی پہلی مرتبہ صوبے میں اقتدار میں آئی تھی جب کہ 2018 کے انتخابات میں اسے دو تہائی اکثریت ملی تھی۔
دورانِ سماعت درخواست گزار کے وکیل عارف جان آفریدی نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹر شکیل آفریدی امریکہ کے لیے جاسوسی کرنے پر جیل میں قید ہیں۔ لیکن اُن کے بیوی بچوں کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
خیبر پختونخوا کے نگراں وزیرِ اعلیٰ محمد اعظم خان کے انتقال کے بعد جسٹس ریٹائرڈ ارشد حسین شاہ کو نیا نگراں وزیرِ اعلیٰ مقرر کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان (آئی ایس پی آر) نے جاری بیان میں کہا تھا کہ یہ جھڑپ پیر کو انٹیلی جینس معلومات کی بنا پر کیے گئے آپریشن کے دوران ہوئی جس میں تین دہشت گرد بھی مارے گئے۔
حکام کے بقول جھڑپ میں آرمی کے سات کمانڈوز زخمی بھی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کو طبی امداد کے لیے اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
پشاور کے قریب ازاخیل میں یو این ایچ سی آر کے دفتر کے سامنے جمع ہونے والوں کی اکثریت صوبہ پنجاب اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سمیت دیگر علاقوں سے ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کےپاس کوئی دستاویزات نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایلیٹ فورس کا قافلہ پولیس لائنز ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹکواڑہ چیک پوسٹ کے لیے جا رہا تھا کہ ٹانک اڈہ کے قریب پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا۔
افغان فنکاروں رفیع حنیف، حشمت اللہ امیدی اور حمید شہدائی نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت وکیل ممتاز احمد خان کے ذریعے درخواست دائر کی تھی۔
پاکستان سے افغان مہاجرین کی اپنے ملک واپسی کا سلسلہ جاری ہے جن کے لیے سرحد پر دونوں جانب کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔ البتہ ان کیمپوں میں سہولیات کے فقدان کے سبب لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
حالیہ تصادم اس وقت شروع ہوا جب 23 اکتوبر کو فرقہ وارانہ مواد پر مبنی ایک متنازع ویڈیو وائرل ہوئی اور اسی کی ردعمل میں بیرون ملک سے آنے والے دو بھائیوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
درخواست میں حکومت، وزارتِ داخلہ، نادرا، ڈی جی امیگریشن اور وفاقی تفتیشی ادارے (ایف آئی اے) کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ افغانستان کے موجودہ حالات میں ان کے لیے اپنے ملک میں رہنا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں پاکستان میں پناہ فراہم کی جائے۔
عہدیداروں کے مطابق عسکریت پسندوں نے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جنوبی وزیرستان سے ملحقہ رزمک سب ڈویژن کی تحصیل گڑی یوم میں فورسز کی چوکی کو نشانہ بنایا۔
پشاور پریس کلب میں پیر کے روز مفکورہ نامی ایک ادبی اور ثقافتی تنظیم نے افغان باشندوں بالخصوص فن و ثقافت اور صحافت کے شعبوں سے منسلک افراد کو درپیش مسائل و مشکلات پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا تھا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں اور ادبی اور ثقافتی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے شرکت کی تھی۔p
پاڑا چنار کے بازار میں آنے والی خواتین کو نامعلوم افراد متعدد بار ایئر گن سے نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان واقعات کے بعد علاقے میں خوف ہے اور مقامی بازاروں میں خواتین کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر ہے۔
مزید لوڈ کریں