نگران کابینہ میں پہلی مرتبہ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو کابینہ میں شامل کیا ہے جن میں منظور آفریدی اور کو مولانا فضل الرحمٰن کا قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ سینیٹ آف پاکستان کے ڈپٹی چیئرمین مرزا آفریدی کے بھائی ہیں۔ مرزا آفریدی کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے۔
سوات میں بھائی نے اپنی تین بہنوں کو پسند کی شادی کرنے پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا جب کہ چارسدہ میں ایک نوجوان لڑکی کو اس کے والدین نے مبینہ طور سوشل میڈیا پر اپنی تصویر پوسٹ کرنے پر برہم ہو کر قتل کر دیا ۔
اعظم خان کی بطور نگران وزیر اعلٰی تعیناتی پر اتفاق جمعے کی رات اسپیکر ہاؤس پشاور میں ایک اجلاس میں ہوا جس میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی سابق وزیر اعلی محمود خان، سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک اور اسپیکر مشتاق احمد غنی نے کی جب کہ سابق وزیر اعلی اکرم خان درانی نے حزب اختلاف کی نمائندگی کی ۔
خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کی خاص بات یہ ہے کہ گورنر پنجاب کے برعکس خیبرپختونخوا کے گورنر حاجی غلام علی نے اسمبلی کی تحلیل کی سمری پر دستخط کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ اسی دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر نے پی ٹی آئی کے 34 اراکین کے استعفے بھی منظور کر لیے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور سیکیورٹی اہلکاروں پر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافے کے پیشِ نظر تھرمل امیجنگ اسلحہ خریدنے کی منظوری دے دی ہے جس کے بعد جلد ہی 660 جدید ترین رائفلیں پولیس کو فراہم کی جائیں گی۔
خیبر پختونخوا کے مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے ایک فتویٰ جاری کرتے ہوئے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے منافی قرار دیا ہے۔ فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں صرف ریاست کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل ہے کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔
حکام کسی نتیجہ خیز مذاکرات شروع ہونے سے قبل احتجاجی دھرنے کے خاتمے پر زور دے رہے ہیں جب کے مظاہرین دھرنا ختم کرنے سے انکار کرتے ہوئے گرفتار قبائلی رہنما ؤں کی رہائی کے مطالبے پر مصر ہیں۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان علاقائی سالمیت اور ریاستوں کی سیاسی آزادیوں پر یقین رکھتا ہے۔
قیامِ امن کی حمایت اور کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف ریلیوں کا انعقاد ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب ایک طرف وفاقی حکومت مبینہ طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کاrروائی شروع کرنے کے لیے اقدامات کررہی ہے جبکہ دوسری طرف مبینہ عسکریت پسندوں نے دہشت گردی اور تشدد کی کارروائیوں میں بھی اضافہ بھی کر دیا ہے۔
طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے اعلٰی تعلیم کے دروازے بند ہونے کے باعث ارم سمیت درجنوں طالبات نے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ بدھ کو ا سلام آباد میں افغان سفارت خانے کے سامنے احتجاج کیا۔
جمعیت علماء اسلام ف صوبہ خیبر پختونخوا کے زیر اہتمام آل پارٹیز کانفرنس نے خیبر پختونخوا میں جاری بدامنی، ٹارگٹ کلنگ،اغواء برائے تاوان اور قتل و غارت گری کے واقعات روکنے کے لیے صوبائی حکومت سے سنجیدہ اقدامات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھتہ خوری کے واقعات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ۔
انٹرسروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں جھڑپ کے نتیجے میں تین اہل کاروں کی ہلاکت اور دس کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد بھی مارے گئےاور ان سے ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کیا گیا۔
خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان نے عمران خان کے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے اسمبلی تحلیل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے کہ تاہم یہ واضح نہیں ہو سکا کے کیا وہ جمعے کو اسمبلی توڑیں گے یا نہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ فوج کے اسپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) کمانڈوز اور کوئک رسپانس فورس (کیو آر ایف) کے اہلکار آپریشن میں مصروف ہیں جب کہ بنوں کینٹ کی فضائی نگرانی بھی کی جارہی ہے۔
سرکاری بیان کے مطابق مبینہ دہشت گردوں نے ہفتے اور اتوار کے درمیانی شب تھانہ برگئی پر خودکار ہتھیاروں کلاشنکوف اور راکٹ لانچروں سے فائرنگ کی جب کہ ہینڈگرینڈز بھی پھینکے۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر کے تاریخ میں پہلی بار خواتین کی سائیکل ریلی کےانعقاد کے بعد مرکزی حکومت میں شامل جمعیت علماء اسلام (ف)، صوبائی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی پارٹی جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں نے مخالفت کی ہے جب کہ بعض جماعتوں نے احتجاج بھی شروع کر دیا ہے۔
عسکریت پسندوں نے منگل اور بدھ کی درمیانی شب فرنٹیئر کانسٹبلری (ایف سی) کے اہلکار رحمان زمان اور ان کے والد شاہد زمان کو گھر میں گھس کر بیٹی اور بیوی کے سامنے تشدد کے بعد فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے توہینِ مذہب کیسز میں سزائے موت سنانے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی، معاشی مسائل اور دیگر وجوہات کو توہینِ مذہب کے الزام عائد کر کے استعمال کیا جاتاہے۔
پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ آئی ایس پی آرکے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ یہ جھڑپ اس وقت شروع ہوئی جب سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس معلومات ملنے پر عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے کو گھیرے میں لیا۔
خیبر پختونخوا کے وادیٴ سوات اور ملحقہ علاقوں کی سیاسی، سماجی اور کاروباری تنظیموں نے قیامِ امن اور دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے جب کہ کسی بھی قسم کی عسکریت پسند کو مسترد کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے حکومت سے قیامِ امن کے لیے نتیجہ خیز اقدامات پر زور دیا ہے۔
مزید لوڈ کریں