Sidra Dar is a multimedia journalist based in Karachi, Pakistan.
دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کے کیس میں اگر کچھ مماثلت ہے، تو ان لڑکیوں کا کم عمر ہونا اور کراچی سے لاپتہ ہونے کے بعد پنجاب کے شہروں میں موجود ہونا ہے اور سب سے اہم دونوں لڑکیوں کا سراغ ایک ہی دن ملنا ہے۔
یوں تو شام میں کراچی کا موسم دل فریب اس لیے ہو جاتا ہے کہ یہاں چلنے والی سمندری ہوائیں ہی گرمی کا توڑ کرنے کے لیے کافی ہیں لیکن حد نگاہ پھیلے انسانوں کے اس سمندر کو عبور کر کے جلسہ گاہ تک، جہاں مرکزی قائدین کا اسٹیج تھا، پہنچنا ہی ایک دشوار کن مرحلہ تھا۔
تحریکِ انصاف نے اتوار کو کراچی میں سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا۔ مزارِ قائد سے متصل باغِ جناح میں جلسے میں شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جلسے کے شرکا کا سابق وزیرِ اعظم کی حکومت کے خاتمے اور ماضی میں کراچی کے لیے کیے گئے اعلانات پر کیا کہنا تھا؟ جانیے سدرہ ڈار کی اس ویڈیو میں۔
کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ بلقیس ایدھی نے اسے نہ صرف ثابت کیا بلکہ یہ بھی بتایا کہ ایک عورت اپنی پہچان اور شناخت کیسے بناسکتی ہے۔ آج بلقیس ایدھی کے یوں بچھڑجانے کے بعد انسانیت کا ایک عظیم باب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا۔
پاکستان کے صوبے سندھ میں واقع منچھر جھیل کبھی اپنے شفاف میٹھے پانی اور آبی حیات کی وجہ سے جانی جاتی تھی۔ مگر اب یہاں کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا۔ اس جھیل پر کئی سو کشتیوں پر مشتمل ایک گاؤں برسوں سے آباد تھا مگر اب صرف چند ہی خاندان یہاں رہ گئے ہیں۔ آلودہ پانی اور آبی حیات کی معدومیت نے منچھر جھیل کے باسیوں کو اپنا سب کچھ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پانی کے عالمی دن کے موقع پر دیکھیے سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی خصوصی رپورٹ۔
کراچی کا اولڈ سٹی ایریا اپنی تاریخی عمارتوں کے لیے مشہور ہے جن میں سے کئی اب مخدوش حالت میں ہیں۔ ان عمارتوں کی سیر کے لیے ہر اتوار کو ایک نجی تنظیم کی جانب سے 'ہیریٹیج واک' منعقد کی جاتی ہے۔ اس واک میں شامل ہو کر شہری نہ صرف ان عمارتوں کا اندرونی و بیرونی جائزہ لیتے ہیں بلکہ شہر کی تاریخ کے بارے میں معلومات بھی حاصل کرتے ہیں۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
پاکستان میں کسی بھی نیوز روم میں صحافیوں کو ذہنی دباؤ سے نکالنے کے لیے کوئی کاؤنسلنگ سروس میسر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وقت دباؤ کی کیفیت میں کام کرنے والے افراد جو کچھ محسوس کر رہے ہوں وہ اس کا اظہار نہیں کر پاتے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہم شیراز صحرائی اور پُر خطر راستوں پر گاڑی دوڑانے کا شوق رکھتی ہیں۔ وہ 18 برس کی عمر سے ہی آف روڈ کار ریسنگ میں حصہ لے رہی ہیں۔ بطور خاتون ریسر ماہم شیراز کو کس طرح کے ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ جانیے نوجوان آف روڈ ریسر کی کہانی سدرہ ڈار کی اس رپورٹ میں۔
روس کے حملے کے بعد سینکڑوں پاکستانی طلبہ یوکرین میں پھنس گئے تھے۔ پاکستانی سفارت خانے کا کہنا تھا کہ ہم ان طلبہ سے رابطے میں ہیں جب کہ طلبہ کا مؤقف تھا کہ وطن واپسی کے لیے ان کی کسی بھی طرح کی مدد نہیں کی گئی۔ انہی طلبہ میں سے ایک حمزہ بھی تھے جو مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پولینڈ کی سرحد پر پہنچے اور پھر وہاں سے اپنے ذاتی خرچ پر واپس پاکستان آئے۔ پاکستانی طالب علم نے یہ سفر کیسے طے کیا اور کیا کچھ دیکھا؟ تفصیلات سدرہ ڈار اور عمر فاروق کی اس رپورٹ میں۔
سڑک پر کھڑا اپنی ڈیوٹی پر مامور پولیس کا سپاہی غالباًیہ نہ جانتا ہو کہ وہ جس ادارے کی وردی پہنے ڈیوٹی دے رہا ہے وہ برصغیر کی پہلی ماڈرن پولیس فورس تھی جسے دیکھ کر دوسرے صوبوں اور اضلاع میں پولیس کا نظام رائج کیا گیا۔
روس کے حملے کے بعد درجنوں پاکستانی طلبہ یوکرین میں پھنس گئے ہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کے مطابق وہ طلبہ سے رابطے میں ہے اور براستہ پولینڈ ان کے انخلا کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن طلبہ زیرِ زمین ٹرین اسٹیشنز اور ہاسٹلز کے تہہ خانوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ سدرہ ڈار نے کچھ طلبہ سے جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ یوکرین میں کن حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ کہنا ہے امیر حمزہ کا جو پاکستان کے علاقے دیر سے یوکرین میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے گئے تھے لیکن روس اور یوکرین کے درمیان چھڑنے والی جنگ کی وجہ سے اب خارکیف میں محصور ہیں۔
کراچی کا 'ٹرٹل بیچ' کئی اقسام کے کچھووں کی افزائش کا مرکز تھا لیکن اب ان میں سے کئی اقسام نے اس ساحل سے رخ موڑ لیا ہے۔ اب صرف 'گرین ٹرٹل' ہی انڈے دینے کے لیے اس ساحل پر آتے ہیں جن کے لیے حکومت نے خاص انتظام کر رکھا ہے۔ سدرہ ڈار اور خلیل احمد کی رپورٹ۔
سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد کچھ ویڈیوز گردش کرنے لگیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں یہ منظر کیا تھا اور وائرل ہونے والی ویڈیوز کی اصل حقیقت کیا ہے اس حوالے سے وائس آف امریکہ نے ماہرینِ فلکیات سے بات کی۔
عام لوگ تو رشتہ داروں کی محفل میں 'باڈی شیمنگ' کا نشانہ بنتے ہیں البتہ مشہور شخصیات کو نجی محفلوں سے لے کر سوشل میڈیا کے عوامی فورم پر بھی تنقید اور طعنے سننے پڑتے ہیں۔
کراچی میں بنگالیوں اور بہاریوں کی ایک بڑی تعداد 1971 کے بعد سے رہائش پذیر ہے جنہوں نے 71 کے بعد بھی پاکستان کو اپنا ہی وطن سمجھ کر یہاں رہنے کو ترجیح دی اور خود کو یہاں کی ثقافت اور رہن سہن میں ضم کر لیا۔ لیکن ان کا شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
فضائی آلودگی کی وجہ سے جہاں دل اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں اب یہ بھی نظر آ رہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
کراچی میں واقع ماہی گیروں کی بستی ابراہیم حیدری کے غلام داؤد کی کہانی دیگر خواجہ سراؤں سے خاصی مختلف ہے۔ انہوں نے خواجہ سراؤں کی پیشکش ٹھکرائی، والدین کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا اور بکریاں چرا کر پیٹ پالنے کی راہ اپنائی۔ غلام داؤد کی منفرد کہانی لائے ہیں سدرہ ڈار اور خلیل احمد۔
'گھر کے مردوں کی عادت ہوتی ہے پوچھنا، یہ جتانا کہ یہ سحری میں اٹھ کیوں نہیں رہی، نماز کیوں نہیں پڑھ رہی۔ یہ موضوع اب بھی بہت سے گھرانوں میں ایک ٹیبو ہے'.
مزید لوڈ کریں