عرب دنیا میں عوامی تحریکوں سے متاثر ہو کر، یمن میں مظاہرین صدر صالح کی برطرفی کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ۔ تین عشروں سے زیادہ عرصے تک صدر صالح نے یمن پر اپنے اقتدار کی گرفت مضبوط رکھی ۔ ان کی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں محمد احمد بھی شامل تھے ۔ وہ کہتے ہیں’’صالح نے اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ انھوں نے اس ملک کو قبائلی عداوتوں اور نسلی تفریق کی سرزمین بنا دیا۔ انھوں نے لوگوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔‘‘
صدر صالح اقتدار منتقل کرنے پر صرف اس وقت تیار ہوئے جب پارلیمینٹ نے ایک متنازع قانون پاس کر دیا جس کے تحت انہیں یہ استثنا دیا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔
اپنے الوداعی خطاب میں ، مسٹر صالح نے شرمساری کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’اگر میرے 33 سالہ دورِ حکومت میں مجھ سے کچھ کوتاہیاں ہوئی ہیں، تو میں معافی کا طلبگار ہوں ۔ میں یمن کے تمام شہریوں سے معذرت کرتا ہوں۔‘‘
گذشتہ جون میں، مسٹر صالح صدارتی کمپاؤنڈ پر بم کے حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے ۔ انھوں نے کئی مہینے سعودی عرب میں اپنی صحت کی بحالی میں صرف کیے۔
توقع ہے کہ یمنی صدر امریکہ میں مزید علاج کرائیں گے۔ امریکی عہدے داروں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کا قیام مستقل نہیں ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے امریکی موقف کا اعادہ کیا۔ انھوں نے کہا’’ان کے امریکہ کا سفر کرنے کا مقصد صرف علاج کرانا ہے ۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ یہاں صرف اتنی ہی مدت کے لیے ٹھہریں گے جو علاج کے لیے ضروری ہوگی۔‘‘
امریکہ کے لیے یمن میں سیکورٹی کی صورتِ حال تشویش ناک ہے کیوں کہ یہ ملک القاعدہ سے تعلق رکھنے والے اسلامی عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ بنا رہا ہے ۔ ملک کے کچھ حصوں میں اغوا، ڈکیتی اور قبائل کے درمیان پُر تشدد عداوتوں کے واقعات عام ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مرکزی حکومت ان قابو پانے میں بے بس ہے ۔
مارینا اوٹاوے واشنگٹن میں قائم کارنیگی اینڈوومنٹ میں مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’میں سمجھتی ہوں کہ یمن میں ہمارے مقاصد بہت محدود ہیں، یعنی جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ کے عزائم کو خاک میں ملانا، اور اتنا استحکام قائم کرنا کہ آئے دِن وہاں لوگ ہلاک نہ ہوتے رہیں۔‘‘
احتجاج کرنے والے مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسٹر صالح کے خاندان کے لوگوں کو اہم عہدوں سے ہٹایا جائے کیوں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ ملک کے اہم شعبوں کو کنٹرول کرتے رہیں گے ۔
گنی ہل برطانیہ میں قائم تحقیقی ادارے Chatham House سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’سوال یہ ہے کہ صدر کے بیٹے ، ان کے بھتیجے اور دوسرے رشتے دار فوجی یونٹوں، کاروباری مفادات اور سیاسی طاقت پر کس حد تک اپنا کنٹرول برقرار رکھتے ہیں۔‘‘
صدر صالح نے عہد کیا ہے کہ وہ یمن واپس آئیں گے اور کارینگی اینڈوومنٹ کی مارینا اوٹاوے کہتی ہیں کہ وہ اپنی سیاسی طاقت بحال کر سکتے ہیں۔’’دنیا کے اس حصے میں آپ اتنے طویل عرصے تک اقتدار میں نہیں رہ سکتے اگر آپ ایسے مشاق سیاستداں نہ ہوں جس کا حلقۂ اثر بہت وسیع نہ ہو ۔ صالح میں یہ سب خصوصیات موجود ہیں۔ لہٰذا ان کی واپسی کو مکمل طور سے خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ۔‘‘
یمن میں صدارتی انتخاب 21 فروری کو ہونے والا ہے ۔ لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس انتخاب سے یمن میں ایک سال سے جاری سیاسی بحران اور افرا تفری کا خاتمہ ہوگا یا نہیں۔