یمن میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے دارالحکومت صنعا اور دیگر شہروں میں ریلیاں نکالی ہیں جِن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ زخمی صدر علی عبد اللہ صالح کے دو طاقتور بیٹے ملک چھوڑجائیں ۔
تین جون کو صدارتی محل پر حملے کے نتیجے میں مسٹر صالح کے سنگین زخم آئے جو سعودی عرب میں زیرِ علاج ہیں، تاہم اُن کے بیٹوں نے طاقتور فوجی دستوں کا کنٹرل سنبھالا اور اقتدار پر اپنے والد کا قبضہ جاری رکھاہواہے۔
اپوزیشن کے متعدد سرگرم کارکنوں نے اتوار کے روز مار چ کیا اور نعرے بازی کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مسٹر صالح اور اُن کے قریبی حلقے سے تعلق رکھنے والے ارکان یمن چھوڑ جائیں۔ اُن کے سب سے بڑے بیٹے احمد یمنی فوج کے بہترین تربیت یافتہ ریپبلیکن گارڈ کے سربراہ ہیں، جب کہ اُن کے بھائی، خالد خصوصی فورسز ڈویژن کے سربراہ ہیں۔
باوجود اِس بات کےکہ 33سالہ آمرانہ دور کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک بھر میں روزانہ احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ، مسٹر صالح سبک دوش ہونے پر تیار نہیں ہیں۔ اُن کے معاون، نائب صدر عبد الرب منصور ہادی پر مخالفین اور مغربی ممالک کی طرف سے دباؤ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے کہ جمہوری حکومت کے نظام کے حصول کی خاطر فوری طور پر اقتدار حوالے کرنے کی طرف آگے بڑھیں۔
اتوار کے دِن یمنی عہدے داروں نے بتایا کہ مسٹر صالح کی صحت بہترہے۔ ابھی یہ واضح نہیں کہ وہ کب یمن واپس آئیں گے۔
اُن کی غیر موجودگی میں یمنی فوج نے مذہبی شدت پسندوں کے خلاف لڑائی جاری رکھی ہے جنھوں نے گذشتہ مہینے زنجبار کے جنوبی شہر کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ یمنی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اتوار کو ابیان صوبے میں، جو کہ زنجبار کا دارالحکومت ہے، حکومتی طیاروں نے شدت پسندوں کو ہدف بنایا۔