امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور چینی رہنما شی جن پنگ کے درمیان پیر کی شام ہونے والی ورچوئل ملاقات سے گو کہ زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جا رہیں،مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے صدور اپنے اچھے تعلقات کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں سدھار لانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
وائٹ ہاوس کے مطابق، صدر بائیڈن اپنے چینی ہم منصب سے بطور صدر اپنی اولین بات چیت میں براہ راست اور واضح انداز میں کئی معاملات پر تبادلہ خیال کررہے ہیں۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا ہے کہ اگرچہ بائیڈن چین کے صدر سے اپنی نائب صدارت کے دور میں ملاقات کر چکے ہیں، وہ "انہیں اپنا دیرینہ دوست نہیں سمجھتے"۔لیکن ترجمان کے مطابق، ان تعلقات کی بنا پر بائیڈن چین کے سربراہ سے "کھل کر بات کر سکیں گے۔چاہے وہ دفاعی یا معاشی امور کے معاملات ہوں یا انسانی حقوق کا معاملہ"
ترجمان کے مطابق، وہ ان معاملات پر بھی بات کریں گے، جن میں تعاون اور مل جل کر کام کرنے کی گنجائش ہے"۔
ایک سینئیر وائٹ ہاوس ترجمان کے مطابق امریکی اور چینی صدر کے درمیان میٹنگ ہماری ان کوششوں کا حصہ ہے، جس کے تحت "ہم مسابقت کو ذمہ داری سے جاری رکھ سکیں" اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ "کسی مخصوص نتیجے پر اتفاق کر لیا جائے گا"۔
جین ساکی نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ بائیڈن بیجنگ کی جانب سے ایٹمی طاقت کے حامل ہائپر سونک میزائل کے تجربے پر بات کریں گے یا نہیں، جو چین نے اس سال اگست میں کیا تھا۔
اس ملاقات کے حوالے سے مزید تفصیلات کچھ دیر بعد، ابھی جانئے کہ چین کے صدر حالیہ دنوں میں اتنے طاقتور حکمران کیسے بنے۔
چین کے صدر کی طاقت میں حالیہ اضافہ
چین کے صدر حکمراں کمیونسٹ پارٹی کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد ایک بےحد مضبوط رہنما بن کر ابھرے ہیں۔ مبصرین کے مطابق کمیونسٹ پارٹی کے ماضی، حال اور مستقبل پر ان کی نظریاتی گرفت بھی نمایاں ہوئی ہے۔ یہ چیز ان کے لیے بطور پارٹی لیڈر اگلے سال ہونے والی نیشنل کانگریس میں پارٹی کے سربراہ کے طور پر تیسری پانچ سالہ مدت سنبھالنے کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس طرح وہ ماو زے تنگ اور ڈینگ ژیاؤپنگ کے برابر آن کھڑے ہوں گے۔ماو نے 1949 میں عوامی جمہوریہ کی بنیاد رکھی، اور ڈینگ ژیاؤپنگ نے تین دہائیوں بعد ملکی معیشت کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر ڈالا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنے ایک مضمون میں حالیہ چند اہم واقعات کے پیچھے چھپی گہرائی کا احاطہ کیا ہے۔
شی کے اس مقام تک پہنچنے کی کیا اہمیت ہے؟
اگرچہ قواعد غیر تحریری تھے، شی سے پہلے کے ان کے دو پیشرووں نے صدارت کی مدت کو سامنے رکھتے ہوئے پارٹی کے سربراہ کے طور پر پارٹی کی قیادت کی دو مدتیں پوری کیں ۔ تاہم، 68 سالہ شی نے صدارتی مدت کی حدود کو ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کی اور اب وہ اس عہدے پر تا عمر فائز رہ سکتے ہیں وہ صرف اسی صورت میں ملک کے سربراہ نہیں ہوں گے کہ وہ خود اپنا عہدہ چھوڑ دیں ہیں یا جبری طور پر انہیں نکالا جائے۔
اگرچہ شی چین کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار کے صاحبزادے ہیں اور وہ ماوزے تنگ اور ڈینگ دونوں کے دوست رہے ہیں، ان کو اس مقام تک پہنچانے میں ان کی سوشلزم کے متعلق ان کے مخلوط اقتصادی نظریات کا بڑا کردار ہے۔
اگرچہ یہ نئی بات نہیں لیکن شی نے چین کی ایک عظیم قوم کے طور پر تشکیل نو اور خوشحال چین کے خواب کے اپنے بیانیے کے ساتھ ساتھ اس چیز کو بھی اپنا ایک معیار بنایا ہے۔
ان اہداف کو سمجھنے کے لیے دو سالانہ موقعوں کے لیے جو نعرے استعمال کیے گئے وہ کافی ہیں۔ ایک نعرہ تھا ’'بلڈنگ اے پراسپیرس سوسائٹی‘ یعنی سال دو ہزار اکیس کو پارٹی کے یوم تاسیس تک ایک نسبتاً خوشحال معاشرے کی تعمیر اور ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ یہ مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ1949 میں معرض وجود میں آنے والے ملک کی سالگرہ تک ایک جدید سوشلسٹ ملک کو حاصل کیا جائے جو خوشحال، مضبوط، جمہوری ہو، ثقافتی طور پر جدت رکھتا ہو اور جہاں یکجہتی ہو۔
اس طرح کی تمام اصطلاحات کا مقصد یہ تصویر پیش کرنا ہے کہ شی جن پنگ کی قیادت میں پارٹی نے ایک ایسا نظام اپنایا ہے جو وقت کے مطابق ڈھلنے کی اہلیت رکھتا ہے اور اپنے شہریوں کی اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے بہتر معیار زندگی اور بین الاقوامی برادری میں چین کے لیے زیادہ احترام کی خواہش کو پورا کرتا ہے۔
اس اجلاس میں شی کے لیے کیا اقدامات لیے گئے؟
اگرچہ کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں شی جن پنگ کو پہلے ہی اہم ترین لیڈر قرار دیا گیا اور پارٹی کے آئین کے اندر ان کا نام شامل ہوا۔ پہلی مرتبہ ماوزے تنگ کے لیے 1945 اور دوسری مرتبہ 1981 میں ڈیانگ کے لیے ایسا کیا گیا۔ پارٹی کے مورخین کے نزدیگ ایسی دو بڑی شخصیات کے ساتھ نام آنا شی کو اس صدی کی غالب شخصیت بناتا ہے۔
SEE ALSO: بچوں کی گھٹتی ہوئی شرح پیدائش چین کا بڑا چیلنج کیوں بن رہی ہے؟پارٹی اجلاس میں فطری طور پر صرف مثبت کامیابیوں کا تذکرہ کیا گیا۔ پارٹی کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے بڑے پیمانے پر غربت اور انیس سو پچاس کے عشرے کے اواخر اور ساٹھ کی دہائی کے شروع میں صنعتی ناکامی سے صرف نظر کیا گیا ہے۔ 1966 سے 1976 کے دوران کے منتشر ثفافتی انقلاب اور 1989 میں طالبعلموں کی قیادت میں بیجنگ میں جمہوریت کے حق میں چلائی جانے والی تحریک کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے جس کو فوج نے طاقت سے کچل دیا تھا۔
اس اجلاس کا مقصد کیا تھا؟
ساڑھے نو کروڑ ممبر رکھنے والی کمیونسٹ سیاسی جماعت جس کی سنٹرل کمیٹی کے چار سو کے قریب عہدیداروں کا مقصد اس اجلاس میں سوچ اور فکر میں اور مقصدیت میں یگانگت حاصل کرنا تھا۔
اس اجلاس میں شی جن پنگ کو 'گریٹ ہال آف دا پیپل' میں مرکزی سٹیج پر بٹھایا گیا۔ پارٹی اپنے ایک نیشنل کانگریس اجلاس سے اگلے اجلاس کے دوران کم از کم سات ایسے پروگرام منقعقد کراتی ہے اور نیشنل کانگریس کا اجلاس پانچ سال کے بعد ہوتا ہے۔
سنٹرل کمیٹی کے پالیسی ریسرچ آفیسر جیانگ جن کوان نے بتایا ہے کہ سیکریٹری جنرل شی جن پنگ کی حمایت کے بعد پارٹی کو ایک چلانے والا مل گیا تھا اور اس طرح پورے چین کے عوام کو ترقی و خوشحالی کے مقصد کے لیے ریڑھ کی ہڈھی کی حیثیت رکھنے والا رہنما حاصل ہو گیا ہے۔
شی کے سامنے چیلنجز کیا ہیں؟
شی کا کوئی سیاسی حریف ملک کے اندر موجود نہیں ہے لیکن ان کو مشکل اقتصادی صورتحال کا سامنا ہے۔ کووڈ نائنٹین سے متعلق چین کی ’زیرو ٹالیرینس‘ کی حکمت عملی ابھی تک اس عالمی وبا کا ملک سے خاتمہ نہیں کر سکی ہے۔
لوگوں کے جان و مال کے نقصان میں اضافہ جاری ہے۔ چین کی معیشت کا زیادہ تر انحصار گھروں کی تعمیر اور اس صنعت میں تنزلی پوری معیشت کو متاثر کر ہی ہے۔ آٹو اور ریٹیل کی فروخت بھی متاثر ہوئی ہے۔ فنانشل مارکیٹس ایک دہانے پر کھڑی ہیں کہ آیا سب سے بڑا ڈیویلپیر ایور گرینڈ گروپ پر دو ٹرلین ین (تین سو دس بلین ڈالر) کا قرضہ چڑھا ہوا ہے، اسے قرق ہونے دیا جائے گا۔ یہ قرقی باقی کئی ایک گروپوں کے لیے بھی ایک انتباہ ہے۔
SEE ALSO: چین اور امریکہ نئی سرد جنگ شروع کرنے سے گریز کریں: سیکرٹری جنرل اقوام متحدہشی جن پنگ نے جب سے سال دو ہزار بارہ سے اقتدار سنبھالا ملک کی معاشی حکمت عملی میں بعض اوقات تضاد نظر آیا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی وعدہ کرتی ہے کہ معیشت کو زیادہ مستحکم اور تقابل والی معیشت بنایا جائے گا۔ لیکن بیک وقت یہ ریاست کی ملکیت نیشنل چیمپئن (بڑے ادارے) پیدا کر رہی ہے۔ یہ ادارے بنکاری، تیل اور دیگر بڑے نجی سیکٹر کو کنٹرول کرتے ہیں۔
[یہ آرٹیکل خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا]