ایسے میں جب کہ کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا پہلے سے موجود صنفی، معاشی اور نسلی عدم مساوات میں اضافے کا سبب بن رہی ہے، جمعہ کے روز اقوام متحدہ نے لڑکیوں کے عالمی دن کو مناتے ہوئے ایک ورچوئل ٹاؤن ہال میں لڑکیوں کیلئے مزید منصفانہ اور مساوات پر مبنی دنیا کا مطالبہ کیا۔ اس ٹاؤن ہال میں زیادہ تر نوجوانوں نے شرکت کی۔
ٹاؤن ہال اجلاس کا مرکزی خیال تھا کہ’’بی بولڈ ۔ بلڈنگ ایکوٹی فار گرلز‘‘ یعنی بہادر بنیں۔ لڑکیوں کیلئے مساوات کی تعمیر
اپنے افتتاحی کلمات میں، اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل آمنہ محمد نے لڑکیوں کو بتایا کہ اپنے مطالبات کیلئے بے خوف ہوں اور جو اقدامات آپ کر رہی ہیں ان میں پر اعتماد رہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ جب ہم لڑکیوں کی کامیابیوں اور قابلیتوں کی خوشی منا رہے ہیں، تو ایسے میں ہمیں تبدیلی کیلئے دباؤ برقرار رکھنا ہو گا، اور پیش رفت میں تیزی لانے کیلئے آپ کے پیش کردہ حل اور خیالات ضروری ہیں۔
نسل، جنسیت، اور مساوات پر بحث کے دوران، ان پر بھی روشنی ڈالی گئی جو ہم جنس پرست یا رنگدار لڑکیوں (غیر سفید فام) کے طور پر پہنچانی جاتی ہیں۔
SEE ALSO: ہر سال سوا کروڑ لڑکیاں بچپن میں بیاہ دی جاتی ہیں: یونیسیفہم جنس پرستوں، دو جنسوں، اور مخنث لڑکیوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک کارکن مولی پی کا کہنا تھا کہ انہیں گیارہ سال کی عمر میں دوہرے جنسی رجحان رکھنے والی لڑکی کے طور پر سامنے آنے پر فخر ہے۔
انہوں نے ٹاؤن ہال میں کہا کہ ایسے جنسی رجحانات رکھنے والی لڑکیوں کو نہ صرف تعصب بلکہ زبانی، جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بننے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جس سے ان کا سکول تک چھوٹ سکتا ہے۔
نیویارک میں سیاہ فام خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم گرلز فار جینڈر ایکوٹی سے وابستہ ایک کارکن نے نوجوان سیاہ فام خواتین کیلئے انصاف اور ازالہ کا مطابہ کیا۔
کارکن کا کہنا تھا کہ 40 فیصد سیاہ فام بچیوں اور خواتین کو زندگی میں ریپ اور جنسی حملوں کا تجربہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاہ فام لڑکیوں کا حق ہے کہ وہ ایک ایسی دنیا مییں زندگی گزاریں جہاں ان کی قدر کی جائے اور انہیں تحفظ کا احساس ہو۔ انہوں نسوال کیا کہ اقوام متحدہ عالمی برادری میں کس طرح سیاہ فام لڑکیوں کی مدد کر سکتا ہے؟
اس کے جواب میں یو این پاپولیشن فنڈ کی عہدیدار کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ حکومتوں کی مدد کر رہا ہے تا کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی عالمی ذمہ داریوں کو آگے لے کر جائیں۔
عہدیدار کا کہنا تھا کہ خواتین کو نسلی تفاوت اور صنفی عدم مساوات کے خلاف آواز بلند کرنی چاہئیے، کیونکہ ان کی آواز میں طاقت ہے اور وہ تبدیلی کیلئے وزن رکھتی ہیں۔
اسی دوران یوگینڈا سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ دو بچیوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ ان کے علاقے میں بچیوں کو اس وجہ سے سکول سے نکلنا پڑتا ہے کیونکہ ہر ماہ انہیں ایک قدرتی حیاتیاتی عمل سے گزرنا ہوتا ہے اور ان کی رسائی سینیٹری مصنوعات تک نہیں ہے۔
تاہم یہ بات صرف افریقہ تک ہی محدود نہیں ہے۔ امریکہ میں ایک گرل سکاؤٹ جولیا نے اپنے سکول میں پہلی انٹرسیکشنل فیمینسٹ کلب کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے ایک سروے کیا، جس سے پتا چلا کہ اس قدرتی حیاتیاتی عمل کی وجہ سے 76 فیصد بچیاں سکول نہیں جا سکیں کیونکہ انہیں سینیٹری مصنوعات تک رسائی نہیں تھی۔
یو این وومن کی انیتا باھیٹا نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بچیوں کو کم قیمت سینیٹری مصنوعات تک رسائی ہونی چاہئیے۔