دنیا کے کئی دیگر ملکوں کی طرح اب پاکستان میں بھی خواتین موٹر سائیکل کی سواری شروع کر دی ہے۔ اس ابتدائی مرحلے میں انہیں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ حکومتی ادارے خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور خود انحصاری کی جانب قدم بڑھانے میں ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کر رہے ہیں
جنوری 2018 میں شروع ہونے والی اس مہم کے دوران موٹر سائیکل سوار خواتین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان میں انہیں سڑکوں پر ہراساں کیے جانے کے واقعات، تربیتی ورکشاپوں اور خواتین ٹریفک پولیس کی عدم دستیابی سر فہرست ہیں۔
خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی جانب راغب کرنے کی اس مہم میں پنجاب بھر کی خواتین نے بھرپور حصہ لیا۔ لاہور کی شاہدہ پروین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شروع میں بہت سے مسائل تھے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اکثر پاکستانی مرد یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ عورتیں بھی موٹر سائیکل چلا سکتی ہیں۔ ہوتا یہ تھا کہ جب ہم موٹرسائیکل پر سڑک پر نکلتے ہیں کئی نوجوان ہمیں گھورتے اور تنگ کرتے ہیں۔ کئی دفعہ تو ہمیں ہراساں کرنے کے لیے ریس لگانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ ہم ان سے نہیں ڈرتیں۔
شاہدہ پروین کا کہنا تھا کہ موٹرسائیکل چلانے سے ہمیں بہت آسانی ہوئی ہے۔ میں اپنے بہت سے کام خود کر لیتی ہوں۔
موٹر سائیکل سوار خواتین کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے شاہدہ پروین نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر شہر میں خواتین ٹریفک وارڈنز کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا جائے تو اس سے موٹر سائیکل چلانے والی خواتین کو بہت سہولت ملے گی ۔ کیونکہ اکثر اوقات مرد ٹریفک وارڈنز ان کے مسائل کو نہیں سمجھ پاتے اور ان کا رویہ بھی درست نہیں ہوتا۔
فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی میں جب سٹی ٹریفک پولیس نے طالبات کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دی تو ان میں زین ضیا بھی شامل تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ موٹر سائیکل ڈرائیو کرنے کے معاملے میں انہیں اپنے خاندان کا تعاون اور حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ایک لڑکی کا موٹر سائیکل لے کر باہر سڑک پر آنا اتنا آسان نہیں ہے۔ ان کے بقول دوسروں کا تو خیر ذکر ہی کیا، یونیورسٹی کے لڑکوں نے بھی شروع میں ان کا تمسخر اڑایا، لیکن وہ ثابت قدمی سے ڈٹی ہوئی ہیں اور وہ یونیورسٹی میں خود موٹر سائیکل چلا کر ہی آتی جاتی ہیں۔
زین نے بتایا کہ سڑکوں پر تنگ کیے جانے کے واقعات کے علاوہ موٹر سائیکل ڈرائیو کرنے والی خواتین کو بعض ٹیکنکل مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔مثلاً ایک بار ان کی موٹرسائیکل کا ٹائر پنکچر ہو گیا تو انہیں اپنے بھائی کی مدد لینی پڑی۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے خصوصي ورکشاب بنا دیے جائیں تو پھر انہیں کسی مرد کے سہارے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
راول پنڈی کی مہوش فخر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اسلام آباد کی ٹریفک پولیس، باقی شہروں کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے، مگر عام لوگوں کے لیے ایک لڑکی کو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے دیکھنا اچنبھے کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پٹرول کے لیے لائن میں لگنا، اور پارکنگ ڈھونڈ نا بھی ایک مسئلہ ہے، جس پر توجہ دینے کی ضروت ہے۔ ان کی تجویز تھی کہ سکوٹی کو چوری سے بچانے کے لیے اس پر ٹریکر لگایا جانا چاہیے۔
پنجاب کے اسٹریٹیجک مینجمنٹ ریفارم یونٹ کے ڈائریکٹر جنرل سلمان صوفی کہتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں شعور اجاگر کرنے اور موٹر سائیکل چلانے والی خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کر رہی ہے، جن میں سٹریٹ تھیٹرز ، اسٹریٹیجک منیجمنٹ ریفارم یونٹ کا قیام اور خواتین کے لیے ایک حفاظتی ایپ بھی شامل ہیں، جس سے خواتین ڈرائیوز کو عوامی مقامات استعمال کرنے اور خود کو ہراساں کیے جانے سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ خصوصی ایپ انہیں فوری طور پر پولیس کی مدد فراہم کرتا ہے۔
پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں تین ہزار خواتین کو سبسڈی پر موٹر سائیکلیں فراہم کی ہیں جس سے کم آمدنی والی خواتین کو آمد و رفت میں سہولت مل رہی ہے، لیکن ابھی سڑکوں پر تحفظ فراہم کرنے کے لیے مزید بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے۔ موٹرسائیکل ڈرائیونگ خواتین کی خود مختاری کی جانب ایک اور قدم ہے لیکن انہیں معاشرے میں آگے بڑھنے کے لیے اور مساوی حقوق کے لیے اور بھی بہت سے قدم اٹھانے ہوں گے۔