پاکستان نے کہا ہے کہ ایران کے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا صدر ٹرمپ کا فیصلہ ’’تنازعات کے پُرامن حل کے لیے مذاکرات اور سفارت کاری کی کوششوں پر اعتماد کو کمزور کرنے کا سبب بننے گا‘‘۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو معمول کی نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ ایران جوہری معاہدہ، ان کے بقول، ’’پیچیدہ معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی ایک بہت اچھی مثال ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ "جب ایران جوہری معاہدہ طے پایا تھا اس وقت پاکستان نے اس کا خیر مقدم کیا تھا اور ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ تمام فریقین اس معاہدے جاری رکھنے کا کوئی راستہ ڈھونڈ لیں گے۔ جب جوہری توانائی کےعالمی ادارے ’آئی اے ای اے‘ نے متعدد بار اس بات کی تصدیق کی گئی کی ایران اس سمجھوتے کی پابندی کر رہا ہے۔"
واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے منگل کو امریکہ کی طرف سے ایران کے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران پر اقتصادی تعزیرات دوبارہ عائد کر دی جائیں گی۔
امریکہ کی طرف سے ایران جوہری معاہدے سے الگ ہونے کے فیصلے پر پاکستان نے اپنے محتاط ردعمل میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کے اس معاہدے سے الگ ہونے کے باوجود دیگر فریقین اس معاہدے کو برقرار رکھنے پر تیار ہیں۔
تاہم، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران پر اقتصادی تعزیرات عائد کی صورت میں اسلام آباد کی تہران کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو بہتر کرنے کی کوششیں متاثر ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کے سابق سفارت کار اشرف جہانگیر قاضی نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہوئے کہا "کیونکہ امریکہ یہ دھمکی دے سکتا ہے کہ اگر آپ نے ایران کےساتھ کسی قسم کے منصوبے شروع کیے تو وہ ان کی تعزیرات کے تحت آ جائیں گے؛ تو شاید وہ مرعوب ہو جائیں گے اصولی طور پر اسلام آباد کو ہونا تو نہیں چاہیے۔ "
تاہم انہوں نے کہا " اصول کے لیے اگر ہمیں کوئی قیمت ادا کرنی پڑے تو اس کے لیے اسلام آباد کو تیار رہنا چاہیے۔ لیکن، پتا نہیں کہ ہم یہ کر پائیں گے یا نہیں۔ لیکن اثر تو پڑے گا۔ لیکن اگر ہم نے اصول کی بات کی تو پھر زیادہ فرق نہیں پڑنا چاہیے۔"
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود نے کہا کہ سعودی عرب صدر ٹرمپ کی فیصلے کے بعد پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج سعودی عرب اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن کو برقرار رکھنا ہوگا۔
بقول اُن کے، "پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں، سعودی عرب امریکہ کی پالیسی کی حمایت کر رہا ہے، بلکہ امریکہ کی طرف سے ایران سے متعلق پالیسی اختیار کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل بھی اس کی حمایت کررہے ہیں۔"
واضح رہے کہ 2015 میں ایران اور دیگر چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے تحت ایران پر اقتصادی تعزیرات نرم کرنے کے عوض اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ امریکہ کے طرف سے اس معاہدے سے الگ ہونے کے باوجود برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین اس سمجھوتے میں شامل رہیں گے۔