چین اور پاکستان نے پشاور سے کراچی ریلوے لائن منصوبے 'ایم ایل ون' کی تعمیر کے لیے اربوں ڈالر کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ایم ایل ون منصوبے کی تکمیل سے پشاور اور راولپنڈی کے درمیان ریل کے سفر کا دورانیہ کم ہو جائے گا۔
پاکستان اور چین نے ایم ایل ون سمیت، توانائی، زراعت، ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کے دیگر سمجھوتوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔
یہ سمجھوتے ایسے وقت میں ہوئے ہیں، جب نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ چین میں موجود ہیں۔
بدھ کو پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران چین کے وزیرِ اعظم لی کی چیانگ نے کہا کہ سی پیک کو مزید فروغ دینے کے لیے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت باہمی تعاون کے خاطر خوا ہ تنائج سامنے آئے ہیں۔
پاکستان ریلوے کے مطابق ایم ایل ون منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور تک ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کے ساتھ اسے ڈیول لائن کرنا بھی شامل ہے۔
اس منصوبے کے تحت نئے ٹریکس بچھائے جائیں گے جہاں 140 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرینیں چل سکیں گی۔ ابتداً یہ رفتار 160 کلومیٹر رکھی گئی تھی جسے اب کم کر دیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت نئے پل، سرنگیں اور دیگر انفراسٹرکچر بھی تعمیر کیا جائے گا۔
حکومتِ پاکستان کے مطابق سی پیک کے پہلے مرحلے میں 25 ارب ڈالر سے زائد کی ہونے والی سرمایہ کاری سے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے مکمل جب کہ دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز قائم کیے جائیں گے۔
پاکستان ریلوے کے سیکریٹری نے ایم ایل ون منصوبے پر پاکستان اور چین کے درمیان فریم ورک معاہدے کے بعد ایکس (سابقہ ٹوئٹر) میں کہا کہ ایم ایل ون ایک اسٹرٹیجک منصوبہ ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اور چین کے درمیان چھ ارب 70 کروڑ ڈالر مالیت کے ایم ایل ون منصوبے پر دستخط ہو گئے ہیں، منصوبے پر جلد کام شروع ہو جائے گا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری میں مختلف پراجیکٹس پر ہونے والی سرمایہ کاری پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عبدالرحمن خان کا کہنا ہے کہ ایم ایل ون پراجیکٹ پاکستان سی پیک کے تحت اہم ترین عوامی نوعیت کا منصوبہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کا پہلا فیز پہلے سے موجود کراچی پشاور ریل لنک کو اپ گریڈ کرنا ہے جس پر 2017 میں دونوں ممالک نے دستخط ہوئے تھے۔
اُن کے بقول اس معاملے میں فیزیبلٹی ورک پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے لیکن چینی حکومت کئی وجوہات کی بنا پر اس میں رقم جاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔
اُن کے بقول اب لگتا ہے کہ وہ رکاوٹیں دور کی جا چکی ہیں اور بھی دونوں ممالک نے اس پر پیش رفت ظاہر کی ہے۔
منصوبے میں کیا تبدیلیاں کی گئی ہیں؟
عبدالرحمن خان کہتے ہیں کہ نئے معاہدے میں طے شدہ رفتار یعنی 160 کلومیٹر کو کم کر کے 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی جارہی ہے۔ اس سے منصوبے کی قیمت میں کمی آئے گی۔ تکمیل کے بعد منصوبے کی عمر 30 سال ہے، یعنی تین دہائیوں کے بعد اسے اپ گریڈ کرنا ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر یہ منصوبہ اگلے سال تک شروع نہ ہوا اور اس میں مزید تاخیر کی جاتی رہی تو یہ خدشہ تھا کہ اس منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہو جائے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کا ابتدائی تخمینہ چھ ارب ڈالرز تھا جو بڑھ کر 10 ارب ڈالرز ہوا جس میں اب ترمیم کر کے دوبارہ چھ ارب 70 کروڑ ڈالر کر دیا گیا ہے۔ا
'ریل سسٹم کی اپ گریڈیشن ضروری لیکن احتیاط بھی لازمی ہے'
پاکستان کے سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف کہتے ہیں کہ پاکستان کے ریلوے سسٹم کو جدید اور اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کو اس حوالے سے نہایت احتیاط سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پاکستان ریلوے کو بھی اپنی استعدادِ کار بڑھانا ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس منصوبوں کو کمرشل بنیادوں پر چلانا ہو گا، تاکہ اس سے قرضے اُتارے جا سکیں۔
ہارون شریف کہتے ہیں کہ اگرچہ اس بارے میں واضح نہیں کیا گیا ہے کہ اس منصوبہ کے لیے 16 سال کا تعین کیسے کیا ہے۔اُن کے بقول چین نے بھی پاکستان کی استعدادِ کار کو دیکھتے ہوئے منصوبے کی تکمیل کا وقت بڑھا دیا ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ پہلے مرحلے میں پاکستان کی معیشت پر مثبت اثر پڑا ہے اور حکومت سی پیک کے دوسرے مرحلے کے منصوبوں میں تیزی لانے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم نے چینی میڈیا میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں اس تاثر کو رد کیا کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو بی آر آئی کے منصوبوں میں شامل ہونے والے ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ چین کی ترقیاتی فنانسنگ شرائط کے بغیر اور روایتی ترقیاتی فنانسنگ ماڈلز سے مختلف ہے۔