جنگلات کی آگ سے دنیا بھر میں پینے کے پانی کی قلت کا خدشہ

سڈنی کے قریب واقع وراگمبا ڈیم میں پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ سڈنی کی 80 فی صد آبادی کا انحصار اس ڈیم کے پانی پر ہے۔

ان دنوں آسٹریلیا کے مشہور وراگمبا ڈیم پر کپڑے کی چادریں بچھائی جا رہی ہیں تا کہ پانی کو جنگلات میں لگنے والی آگ سے پیدا ہونے والی راکھ اور دیگر جلے ہوئے اجزا سے بچایا جا سکے۔ نیوساؤتھ ویلز کے علاقے میں واقع یہ ڈیم سڈنی اور نیوساؤتھ ویلز کے شہروں کی پانی کی 80 فی صد ضروریات پوری کرتا ہے۔

آسٹریلیا کے حکام گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ملک کے مختلف جنگلات میں بھڑک اٹھنے والی آگ کے اثرات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حالیہ بارشوں سے اگرچہ زیادہ تر علاقوں میں آگ بجھ چکی ہے لیکن فضا میں بکھرے ہوئے دھوئیں، راکھ اور جلی ہوئی دیگر چیزوں کے مسلسل زمین پر گرنے اور جھیلوں میں شامل ہونے سے پینے کے لیے صاف پانی کی فراہمی میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

آسٹریلیا کی تاریخ کی شدید ترین آتشزدگی سے ایک لاکھ چار ہزار مربع کلو میٹر سے زیادہ رقبے پر جنگلات اور جھاڑیاں جل کر راکھ ہو چکی ہیں۔ اب ماہرین آتشزدگی کے پانی پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کے لیے پانی کی فراہمی میں کوئی خلل نہ آئے۔

برطانیہ کی سوان سی یونیورسٹی میں ماحولیات کے ایک پروفیسر سٹیفن ڈور کا کہنا ہے کہ اس موسم کے دوران آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی طویل دورانیے کی آگ کی اس سے پہلے دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔

آسٹریلیا کی حالیہ آگ نے دنیا بھر کے لیے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ آب و ہوا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات اور ہرے بھرے میدانوں میں لگنے والی حالیہ آگ نے پانی کے ان ذخائر کو محفوظ رکھنے کی ضرورت میں اضافہ کر دیا ہے جو آبادیوں کے قریب واقع ہیں اور شہریوں کی روزمرہ زندگیوں کا زیادہ تر انحصار وہاں سے پانی کی فراہمی پر ہے۔

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنگلات کی حالیہ آگ گلوبل وارمنگ کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشاندی کرتی ہے کیونکہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے اور موسموں کے خشک اور گرم ہونے کے نتیجے میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات اور ان کے رقبے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

دنیا کے ایک سو سب سے بڑے شہروں کی پانی کی 60 فی صد ضروریات ان کے قریب واقع جھیلوں، دریاؤں اور پانی کے مصنوعی ذخائر سے پوری کی جاتی ہیں۔ جنگلات کی آگ کے بڑھتے ہوئے واقعات سے موسم خشک ہو رہے ہیں، بارشوں میں کمی آ رہی ہے جس سے پانی کے ذخائر سکڑ رہے ہیں۔

جنگلات کی آگ کے بعد ہونے والی بارشوں کے پانی میں دھوئیں کے مضر اجزا، راکھ اور کئی دوسری چیزیں شامل ہو جاتی ہیں۔ جب یہ پانی جھیلوں، تالابوں اور دیاؤں میں پہنچتا ہے تو اسے پینے کے قابل بنانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس پر اضافی اخراجات آتے ہیں۔

موسم اور ماحول سے متعلق ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس صدی کے دوران دنیا بھر میں جنگلات میں آگ کے واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوتا رہے گا بلکہ اس کی زد میں آنے والے رقبے میں بھی اضافہ ہو گا۔ کیونکہ گلوبل وارمنگ مسلسل بڑھ رہی ہے اور اس پر قابو پانے کے لیے ابھی تک سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں۔

اس سلسلے میں زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بارشوں کی کمی کے سبب پانی کے وہ ذخائر سکڑ رہے ہیں جن پر ہماری زندگیوں کا انحصار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند عشروں میں دنیا کے کئی علاقے مکمل طور پر بنجر اور بے آب و گیا ہو جائیں گے اور وہاں کی آبادیوں کو دوسرے علاقوں کی جانب نقل مکانی کرنی پڑے گی جس سے کئی اور طرح کے مسائل اور تنازعات جنم لیں گے۔