|
پشاور -- خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر فائرنگ سے 40 سے زائد ہلاکتوں کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کئی علاقوں میں کاروباری مراکز بند ہیں اور لوگ سراپا احتجاج ہیں۔
زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویش ناک بتائی جا رہی ہے جب کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کا عمل بھی جاری ہے۔ سانحے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتیں مقامی قبائل کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں۔
اس ہولناک واقعے کے بعد حکام مختلف زاویوں سے اس کی تحقیقات کر رہے ہیں جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے مختلف محرکات ہو سکتے ہیں۔
کمشنر کوہاٹ معتصم باللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ تاہم اُن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہلاکتوں کے حوالے سے آنے والے اعداد و شمار میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ انتظامیہ سانحے کے فوراً بعد سے قبائلی عمائدین اور متاثرین کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور کشیدگی پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اُن کے بقول سانحے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے کر اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
قبائلی ضلع کرم گزشتہ کچھ عرصے سے زمین کے تنازع کے باعث فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ضلعے کو باقی اضلاع سے ملانے والی شاہراہ پر وقتاً فوقتاً کبھی اہل تشیعہ تو کبھی سنی قبائل کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس شاہراہ پر حالیہ عرصے کے دوران سیکیورٹی کے ساتھ گاڑیوں کو قافلوں کی صورت میں گزارا جا رہا ہے۔ تاہم جمعرات کو سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کے باوجود فائرنگ سے ہلاکتیں ہوئیں۔
'حملہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا'
مقامی صحافی علی افضل افضال کے مطابق مسلح افراد نے منصوبہ بندی کے تحت 100 گاڑیوں پر مشتمل ان قافلوں کو نشانہ بنایا۔ جب یہ دونوں قافلے مندوری اور اچک کے مقام پر ایک دوسرے کو کراس کر رہے تھے تو حملہ آوروں نے آگے اور پیچھے والی گاڑیوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔
اُن کے بقول اس کا مقصد بظاہر قافلوں کے سیکیورٹی حصار کو توڑنا تھا جس کے بعد حملہ آوروں نے خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اس دوران قافلوں کے درمیان سے کچھ لوگ بھاگنے میں بھی کامیاب ہو گئے۔
سیکیورٹی ذرائع کا ماننا ہے کہ حملہ انتہائی منظم انداز میں ہوا ہے۔ دونوں قافلوں کے شروع اور آخر میں سیکیورٹی اہلکار قافلے کو اپنے درمیان میں رکھ کر حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن مسلح افراد نے پہلے ان سیکیورٹی اہلکاروں کو انگیج کیا اور پھر مسافروں کو نشانہ بنایا۔
قافلے میں موجود پاڑہ چنار پریس کلب کے مقامی صحافی جنان حسین جانی بھی اس حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
اٹھائیس سالہ جنان حسین کا تعلق قبائلی ضلع اپر کرم سے تھا۔ سن 2009 میں وہ ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔
اہلِ علاقہ کے مطابق اس کے بعد جنان حسین نے دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کی فلاح و بہبود کا کام شروع کیا۔ اس کام کے لیے انہوں نے کبھی فرقوں کی تفریق نہیں کی۔
قبائلی ضلع کرم کا مسئلہ کیا ہے؟
ضلع کرم پاکستان کا واحد قبائلی خطہ ہے جس کی تین اطراف سے سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جب کہ ایک طرف سے یہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہے۔ اسی وجہ سے اس علاقے کو 'طوطے کی چونچ' بھی کہا جاتا ہے۔
اپر کرم میں اہل تشیعہ کمیونٹی کی اکثریت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ضلع سے باہر پاکستان کے دیگر علاقوں میں آمدورفت کے لیے انہیں سنی اکثریتی راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
اسی خطے سے تعلق رکھنے والے محقق اور صحافی رفعت اورکزئی کا کہنا ہے کہ یہی جغرافیائی ساخت ہی اس کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔
ان کے بقول ضلع کرم کی شدت پسندی خطے کے باقی حصوں سے اس طرح مختلف ہے کہ اس کے مقامی، علاقائی اور عالمی محرکات کچھ اور ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ “ہم انہی فرقہ وارانہ فسادات میں جوان ہوئے۔ مقامی سطح پر زمینوں کی تقسیم سے فرقہ وارانہ فسادات کو جنم لیتے دیکھا۔"
اُن کے بقول علاقائی سطح پر افغانستان میں روس کے خلاف جنگ میں عرب جنگجوؤں کے اولین ٹریننگ کیمپ یہاں بنے جب کہ 'داعش' کے خلاف شیعہ نوجوانوں کی عسکری تنظیم 'زینبیون' کے لیے نوجوانوں کو یہاں سے لیجانے کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔
رفعت اورکزئی کہتے ہیں کہ ویسے تو یہ فرقہ وارانہ رحجانات قیامِ پاکستان سے قبل کے ہیں۔ لیکن 2006 سے 2008 تک جو فسادات ہوئے اس میں پاڑہ چنار سے سنی قبائل کا انخلا ہوا اور ان کی آج تک واپسی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ وقتاً فوقتاً یہ معاملہ سر اٹھاتا رہتا ہے۔
فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ
ویسے تو اس علاقے میں فرقہ وارانہ رحجانات موجود تھے لیکن اب اس میں شدت آ گئی ہے۔
فرقہ پرستی اور انتہا پسندی سے متعلق کتاب 'پنجابی طالبان' کے مصنف اور محقق مجاہد حسین کہتے ہیں کہ ضیا دور میں اس علاقے میں اہل تشیع کمیونٹی کے رہنما عارف حسین الحسینی کو پشاور میں قتل کیا گیا۔
مجاہد حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ عارف حسین الحسینی کرم کے علاقے پیواڑ سے تعلق رکھتے تھے اور 'افغان جہاد' کے لیے اسلحہ اور دیگر سازوسامان انہی کے علاقے سے گزرتا تھا۔ تاہم بعدازاں افغان پالیسی پر اُن کے صدر ضیاء الحق سے اختلافات ہو گئے تھے۔
علامہ عارف حسین الحسینی ایران کے بانی انقلاب آیت اللہ خمینی کے بہت قریب رہے اور ان کو پاکستان کا امام خمینی بھی کہا جاتا تھا۔
تشیعہ مسلک میں ان کی قدر و منزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تحریکِ جعفریہ پاکستان کے بانی مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد اس جماعت کی قیادت علامہ عارف حسین الحسینی کو دی گئی۔
ان کے قتل کا الزام سابق گورنر اور جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھی جنرل فضل حق پر لگایا گیا اور کہا جاتا ہے کہ پھر اسی ردِعمل میں جنرل فضل حق کو بھی اکتوبر 1991 میں فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
SEE ALSO: کرم میں شیعہ سنی تصادم؛ وہ لڑائی جو برسوں سے جانیں نگل رہی ہے
تو کیا حالیہ کرم سانحہ بھی کسی حالیہ واقعہ کا ردِعمل ہے؟
اس حوالے سے مقامی صحافی علی افضل افضال اس کی ذمے داری بے لگام سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ 12 اکتوبر کو اسی علاقے میں سنی قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 10 افراد مارے گئے۔
علی افضل افضال کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم چلائی گئی جس سے بدلے اور انتقام کو ہوا دی گئی۔
اُن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا مہم کے بعد علاقے میں کسی اور سانحے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ لیکن انتظامیہ یا متعلقہ حکام کی جانب سے نفرت پھیلانے والے اکاؤنٹس بند کرنے کے لیے کوئی منظم کارروائی نہیں کی گئی۔
کمشنر کوہاٹ معتصم باللہ کا کہنا ہے کہ کشیدگی پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ حکام اس سانحے کا باریک بینی سے جائزہ لے کر تحقیقات کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول ابتدائی شواہد سے اب تک یہ سامنے آیا ہے کہ مقامی سے زیادہ یہ بیرونی عناصر کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طریقے سے قافلے کو نشانہ بنایا گیا وہ عام شہریوں کا کام نہیں ہو سکتا۔ تاہم تحقیقات کے بعد ہی اصل صورتِ حال سامنے آ سکے گی۔
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ علاقے میں 'زینبیون بریگیڈ' کے جنگجوؤں کی آمدورفت کے بھی الزامات لگتے رہے ہیں۔ لہذٰا داعش خراساں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔