پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش دہراتے ہوئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ تنازع کشمیر کے حل کے لیے بھرپور کوشش کریں گے۔
فرانس میں ہونے والی جی سیون کانفرنس کے موقع پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سے شیڈول ملاقات پر صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اس ملاقات کے دوران وہ کشمیر کے معاملے پر بھی بات کریں گے۔
صدر ٹرمپ کی طرف سے تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کے اصرار کے بعد تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ صدر اپنی تمام تر توجہ افغانستان میں جنگ کے خاتمے پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نہیں چاہتے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے دو جوہری طاقتیں خطے میں کسی نئی جنگ میں ملوث ہوں۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعات میں الجھا رہا تو وہ افغان امن عمل میں یکسوئی سے اپنا کردار ادا نہیں کر سکے گا۔ لہذٰا صدر ٹرمپ ثالثی کی پیش کش کر رہے ہیں۔
جاوید اشرف قاضی کے مطابق صدر ٹرمپ اگلے سال امریکہ کے صدارتی انتخابات میں خود کو بطور اسٹیٹس مین منوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر کسی بڑے مسئلے کے حل کا کریڈٹ ان کے پاس ہو۔ ان کے بقول شمالی کوریا، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات کے حل میں تاحال صدر ٹرمپ کامیاب نہیں ہو سکے۔
جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ بھارت کسی بھی ایسی ثالثی کی پیش کش کو کبھی بھی قبول نہیں کرے گا کیوں کہ یہ اس کے دیرینہ موقف کی نفی ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
'امریکی اسٹیبلشمنٹ سنجیدہ نہیں لگتی'
عالمی امور کے ماہر اور بوسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر عادل نجم کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ اگر عمران خان اور نریندر مودی کو کیمپ ڈیوڈ میں دعوت دیں اور بیٹھ کر بات چیت ہو تو صرف اسی صورت میں معاملہ آگے بڑھ سکتا ہے۔
عادل نجم کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کروانے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ بھی صدر ٹرمپ کی طرح سنجیدہ ہے۔
جی سیون ممالک کے اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم کی بطور مبصر شرکت کے سوال پر عادل نجم کا کہنا تھا کہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت ایک بڑی طاقت اور دنیا میں اسے اقتصادی اہمیت حاصل ہے۔
عادل نجم کے مطابق جی سیون ممالک میں دنیا کے اثرو رسوخ رکھنے والے ممالک شامل ہوتے ہیں ایسے میں بھارت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کشمیر سے متعلق اپنے بیانیے کو تقویت دے سکتا ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم فرانس میں رافیل طیاروں کے معاہدے پر گفتگو کر سکتے ہیں جس سے فرانس کو اربوں ڈالرز کی آمدنی ہو گی۔ ان کے بقول بھارت کے وزیر اعظم کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ عالمی رہنماؤں سے تعلقات استوار کر لیتے ہیں تاہم وہ کشمیر کے معاملے پر بے نقاب ہو رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
بھارت ثالثی کی پیش کش رد کیوں کرتا ہے؟
عالمی امور کے ماہر عادل نجم کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد سے بھارت کا یہ موقف رہا ہے کہ تنازع کشمیر میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قابل قبول نہیں ہو گی۔ ان کے بقول پاکستان کا بیانیہ اب یہ ہونا چاہیے کہ بھارت کے حالیہ اقدامات کے بعد شملہ معاہدے کی کوئی وقعت نہیں رہی۔
عادل نجم کے مطابق بھارت مسئلہ کشمیر پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا اور جب دیگر ممالک یہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک بات چیت کے ذریعے اس مسئلے کو حل کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مسئلے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
'بھارت امریکہ کا خطے میں اہم شراکت دار ہے'
امریکہ کی پاکستان میں تعینات رہنے والی سابق سفیر این پیٹرسن کا کہنا ہے کہ بھارت امریکہ کا خطے میں اہم شراکت دار ہے۔ امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ بھارت خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کو محدود کرنے کے لیے سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی قیادت کشمیر کے معاملے پر بھارت کو ناراض نہیں کر سکتی۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ بھی ایسا ہی کریں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ امریکہ بھارت کے چین کے ساتھ تنازعات سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے تاہم بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گا۔
عادل نجم کہتے ہیں کہ تنازع کشمیر پر چین پاکستان کے موقف کا حمایتی ہے تاہم امریکہ اور دیگر عالمی قوتیں چین کے مقابلے میں بھارت کو خطے میں مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے بھارت کی بین الاقوامی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
SEE ALSO: کشمیر پاکستان اور بھارت کا باہمی تنازع ہے، برطانوی وزیرِ اعظمافغان امن عمل اور بھارتی اقدامات
این پیٹرسن کا کہنا ہے کہ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ایسے وقت میں ختم کیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے مذاکرات حتمی مراحل میں ہیں اور اس میں پاکستان کردار نہایت اہم ہے۔
لیفٹیننٹ جنرل(ر) جاوید اشرف قاضی کہتے ہیں کہ بھارت نے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کا اعلان سوچ سمجھ کر کیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے مذاکرات حساس موڑ پر ہیں اور پاکستان کو اہمیت مل رہی ہے۔