بھارت سے پاکستان میں داخل ہونے والے دریا ستلج کا سیلابی ریلہ ان دنوں پنجاب کے مختلف علاقوں میں نقصانات کا باعث بن رہا ہے۔ سیلاب کے باعث لاکھوں ایکڑ اراضی متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
دریائے ستلج میں آنے والی طغیانی نے پاکستانی پنجاب کے اضلاع اوکاڑہ، بہاولپور، بہاولنگر، قصور سمیت دیگر علاقوں کے دیہات کو نقصان پہنچایا ہے۔
حکام کے مطابق ان علاقوں میں درمیانے سے اُونچے درجے کے سیلاب کے باعث ہزاروں افراد متاثر ہوئے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال اُٹھ رہا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر خشک رہنے والا دریائے ستلج آخر اس بار کیوں بپھر رہا ہے؟ وائس آف امریکہ نے یہ جاننے کے لیے آبی ماہرین سے بات کی ہے۔
لیکن پہلے یہ واضح کر دیں کہ دریائے ستلج اُن تین دریاؤں میں شامل ہے جن کا کنٹرول 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان طے پانے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دیا گیا تھا، دیگر دو دریا راوی اور بیاس ہیں۔
دوسری جانب سندھ، چناب اور جہلم کا کنٹرول پاکستان کو دیا گیا تھا اور ان کے 80 فی صد پانی پر پاکستان کا حق ہے۔
پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ جب بھی بھارت پاکستان کی جانب پانی چھوڑتا ہے تو اس سے سیلاب آتا ہے اور بعض لوگ اسے بھارت کی 'شرارت' بھی قرار دیتے ہیں۔
لیکن آبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے دونوں ممالک پابند ہیں اور بعض اوقات بھارت کی جانب سے چھوڑے جانے والا پانی نقصانات کے ساتھ ساتھ پاکستان کی زمینوں کو زرخیز کرنے کا بھی باعث بنتا ہے۔
بھارت میں غیر معمولی بارشیں ستلج میں سیلاب کی وجہ؟
پانی پر تحقیق کرنے والی عالمی تنظیم انٹرنیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹیٹوٹ (آئی ڈبلیو ایم آئی) میں ریسرچ افسر ڈاکٹر جہانزیب چیمہ اس بار ستلج میں زیادہ پانی آنے کی وجہ بھارت میں ہونے والی غیر معمولی بارشوں کو قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب بھارت میں زیادہ بارشوں سے دریا بھر جاتے ہیں تو پھر پانی ذخیرہ کرنے کی کم صلاحیت کی وجہ سے وہ پاکستان کی جانب دریا میں پانی چھوڑ دیتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے سے قبل بھارت کی حدود میں فیروزپور ہیڈ ورکس ہے جو پانی کو بھارت کے اندر ہی روک لیتا ہے، لیکن اس بار زیادہ بارشیں ہونے سے اس نے پاکستان کی جانب پانی چھوڑا۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حدود میں دریائے ستلج ایک ہموار سطح میں بہتا ہے جس کے راستے میں کوئی قدرتی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن لوگوں نے دریا کو خشک دیکھ کر اس کے اندر تجاوزات بنا لی ہیں۔
محکمہ آب پاشی پنجاب کے ایڈیشنل سیکریٹری کاشف شمیم کہتے ہیں کہ بھارت نے دریائے ستلج میں تقریباً 30 برس بعد پانی چھوڑا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ گو کہ اس سے کئی علاقوں میں سیلابی صورتِ حال ہے، لیکن اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو گی جو لامحالہ کسانوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولپور اور بہاولنگر کے نواحی علاقوں، جہاں سے یہ دریا گزرتا ہے، وہاں زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہو رہی تھی جو اب پانی آنے سے بہتر ہو گئی ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے ستلج میں آنے والی طغیانی کی وجہ سے وہ لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو غیر قانونی طور پر دریائے کے اندر آنے والی زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔
دریائے ستلج کہاں بہتا ہے؟
دریائے ستلج پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت سے نکلتا ہے جو قصور کے راستے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ پاکستان میں دریائے ستلج قصور، اوکاڑہ، پاکپتن، بہاولنگر، وہاڑی، ملتان، خانیوال اور بہاولپور کے اضلاع میں بہتا ہے اور پھر پنجند کے مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔
کاشف شمیم کہتے ہیں کہ پاکستان کی حدود میں دریائے ستلج پر دو بیراج سلیمانکی اور اسلام بیراج ہیں۔ جہاں کسی حد تک تو پاکستان اِس پانی کو کنٹرول کر سکتا ہے مگر پاکستان کے پاس ایسی کوئی سہولت نہٰیں ہے جس کے تحت دریائے ستلج میں آنے والے اضافی پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
کیا بھارت پانی چھوڑنے سے قبل پاکستان کو آگاہ کرتا ہے؟
کاشف شمیم کے مطابق بھارت نے دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے سے پہلے پاکستان کو آگاہ کیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ بھارت مزید کتنا پانی چھوڑے گا اِس بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بھارتی ریاست ہماچل پردیش میں جب جب زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو وہ اپنے ڈیم بھرنے کے بعد بھارتی ضلع فیروز پور سے ہیڈورکس کے ذریعے پانی پاکستان کی طرف چھورٹے ہیں۔
کاشف شمیم کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں پانی چھوڑے جانے پر پاکستان کی حدود کے اندر ایک بھی بند کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تمام بند محفوظ ہیں۔
لیکن اُن کے بقول لوگ دریا کے راستے جسے 'ریور بیڈ' کہا جاتا ہے اُس کے اندر آباد ہیں جس سے آبادیوں کو نقصان ہوا ہے۔
محکمہ آبپاشی کے سابق افسر عنایت اللہ چیمہ کے مطابق اس سے قبل 1988 میں بھارت نے دریائے ستلج سے پاکستان کی جانب پانی چھوڑا تھا جس سے پاکستان کے بیراجوں کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
کیا بھارت اضافی پانی چھوڑ سکتا ہے؟
اِس سوال کا جواب دیتے ہوئے عنائیت اللہ چیمہ کا کہنا تھا کہ سندھ طاس معاہدے کی رو سے چوں کہ دریائے ستلج کے پانی پر بھارت کا حق ہے تو وہ اِس میں اپنی ضرورت سے زیادہ اضافی پانی چھوڑ سکتا ہے۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ بھارت کا دریائے ستلج کا اسکیپ چینل چونکہ پاکستان کی طرف ہے تو سندھ طاس معاہدے کے مطابق اُس نے پانی اِسی طرف چھوڑنا ہے۔ بھارت یہ پانی گنڈا سنگھ ہیڈ سے فیروز پور کے راستے پاکسان کی طرف چھوڑتا ہے۔
پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟
ڈاکٹر جہانزیب چیمہ کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب ضروری نہیں کہ دریائے ستلج میں دوبارہ پانی 30 برس بعد ہی آئے۔
اُن کے بقول یہ سائیکل کم ہو کر 10 سال سے 15 سال بھی ہو سکتا ہے جس کے سبب پاکستان کو دریائے ستلج کے پانی کا بہتر استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔