'برکس' میں شمولیت کے لیے پاکستان کی درخواست؛ 'بھارت مخالفت کر سکتا ہے'

پاکستان کی طرف سے برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل اقتصادی بلاک 'برکس' میں شمولیت کی باضابطہ درخواست کے بعد اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان ایک ایسے بلاک کا رکن بن سکتا ہے جو دنیا کی ابھرتی ہوئی اہم معیشتوں پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان کی طرف سے برکس میں شامل ہونے کی درخواست رواں سال اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس کے سربراہی کانفرنس کے بعد سامنے آئی ہے۔

اس پلیٹ فارم میں مزید چھ ممالک ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی بعض ماہرین نے حیرت کا اظہار کیا تھا کہ خطے میں چین کا حلیف ہونے کے باوجود پاکستان اس میں شامل کیوں نہیں ہو سکا۔

لیکن اب پاکستان کی طرف سے باضابطہ طور پر 'برکس' پلیٹ فارم کی رکنیت کی درخواست کے بعد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برکس کی رکنیت پاکستان کے لیے سیاسی اور اقتصادی طور پر سود مند ہو گی۔

پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے درخواست کی تصدیق کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ برکس اس درخواست پر پیش رفت کرے گا۔

'پاکسان کو بہت پہلے اس کا رُکن بن جانا چاہیے تھا'

پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کے لیے علاقائی تنطیموں کی رکینت بہت اہم اور ضروری ہوتی ہیں اور یہ پلیٹ فارمز اقتصادی اور سیاسی مواقع فراہم کرتی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ خطے کا اہم ملک ہونے کے ناطے پاکستان کو اس تنطیم کا بہت پہلے رکن بن جانا چاہیے تھا۔

اُن کے بقول یہ دیکھا گیا ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز حلقوں کی طرف سے بعض اوقات دفترِ خارجہ کی تجاویز پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے بعد میں کافی مشکلات ہوتی رہی ہیں۔

پاکستان کے لیے برکس کی رکنیت کیوں اہم کیوں ہے؟

برکس کو 2009 میں قائم کیا گیا تھا اور اس کے ابتدائی ممالک میں بھارت روس، چین اور برازیل شامل تھے، ایک برس بعد اس میں جنوبی افریقہ کو بھی شامل کر لیا گیا تھا۔

رواں سال اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں برکس کے اجلاس میں مزید چھ ممالک ایران، ایتھوپیا، سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور ارجنٹائن کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برکس میں شمولیت سے پاکستان کے لیے اقتصادی مواقع کھل سکتے ہیں اور سرمایہ کاری کے امکانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

'برکس' کی طرف سے رکن ممالک کے درمیان مالیاتی استحکام لانے کے لیے دو مالیاتی ادارے، نیو ڈیولپمنٹ بینک جسے برکس بینک بھی کہا جاتا ہے اور کانٹیجنٹ ریزرو ایگریمنٹ قائم کر رکھے ہیں۔ اگر پاکستان برکس کا رکن بن جاتا ہے تو پاکستان بھی اپنے مالی معاملات کےلیے تعاون حاصل کر سکتا ہے۔

سابق سفیر ندیم عاقل کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے بھی رکن بننے کے بعد ایسی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں تاہم سیاسی طور پر اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔

اُنہوں نے کہا اگر یہ تنطیم جی سیون طرز کی کوئی تنظیم بن جاتی ہے تو پھر برکس سیاسی اثر و رسوخ کی حامل ہو گی اس لحاظ سے اس کا رکن بننا پاکستان کے لیے بھی اہم ہو گا۔

'بھارت پاکستان کی برکس میں شمولیت کے مخالفت کر سکتا ہے'

ماہرین کے مطابق پاکستان کی ہی خواہش ہے کہ وہ برکس کا رکن بنے اور چین بھی اس لیے پاکستان کی حمایت کرے گا. لیکن برکس میں نئے ملک کو رکینیت دینے کے لیے برکس کے تمام اراکین کا اتفاقِ رائے ضروری ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق برکس کا اہم رُکن ہونے کے ناطے بھارت پاکستان کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

روسی میڈیا نے ماسکو میں اسلام آباد کے سفیر محمد خالد جمالی کے حوالے سے خبر دی تھی کہ پاکستان نے برکس کی رکنیت کے لیے ماسکو سے تعاون طلب کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان چاہتا ہے کہ آئندہ برس جب برکس میں مزید توسیع ہو تو پاکستان کو بھی شامل کر لیا جائے۔

پاکستان کے سابق سفیر عاقل ندیم کہتے ہیں کہ بھارت کو یہ خدشہ ہو گا کہ پاکستان برکس کے پلیٹ فارم پر دو طرفہ مسائل سامنے لائے گا۔ لہذٰا وہ رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔

عاقل ندیم کے بقول پاکستان روس کو درمیان میں اس لیے لا رہا ہے تاکہ وہ بھارت کو قائل کرے کہ پاکستان کی رُکنیت کی مخالفت نہ کی جائے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت شروع میں تو روڑے اٹکائے گا، لیکن برکس میں دیگر بڑے ملکوں نے اگر اتفاقِ رائے کیا تو پھر لامحالہ بھارت کو بھی متفق ہونا پڑے گا۔

بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو جلد 'برکس' کی رُکنیت نہ بھی ملی تو اس میں پاکستان کو کوئی نقصان نہیں ہو گا، کیوں کہ تنظیم میں چین ہی وہ واحد ملک ہے جس کی معیشت مضبوط ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ ویسے ہی اچھے تعلقات ہیں۔

دوسری جانب روس اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ علاقائی اقتصادی ترقی میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ اس کے ساتھ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے روس کی معیشت بھی دباؤ میں ہے۔

بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہما بقائی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے ایک نئے ابھرتے ہوئے اقتصادی بلاک کا رکن بنانا اس کے جیو اکنامکس اور جیو اسٹریٹجک مفادات کے لیے اہم ہو گا۔

اُن کے بقول اگرچہ بھارت پاکستان کی مخالفت کرے گا لیکن برکس کا رکن بننا پاکستان کے لیے سفارتی طور پر اہم ہو گا۔