رسائی کے لنکس

پاکستان سے بے دخلی اور سرد موسم، افغان مہاجرین کی مشکلات وطن پہنچ کر بھی کم نہ ہو سکیں


اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق یکم اکتوبر سے لے کر اب تک تین لاکھ ستر ہزار سے زائد افغان باشندے پاکستان سے واپس اپنے وطن لوٹ چکے ہیں۔لیکن افغانستان میں وہ شدید مصائب سے دوچار ہیں۔

عبدالمجید کا تعلق افغانستان کے صوبے ننگر ہار کے علاقے خیوا سے ہے اور پاکستان میں قیام کے دوران وہ راولپنڈی میں رہائش پذیر تھے۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے غیر ملکی باشندوں کی بے دخلی کے فیصلے کے بعد عبدالمجید بھی اپنے آبائی علاقے پہنچ گئے ہیں۔

عبدالمجید کے مطابق حکومتِ پاکستان کی جانب سے زبردستی بے دخلی پر وہ کافی رنجیدہ ہیں کیوں کہ ان کے بقول ان کے پاس اپنا ذاتی گھر نہیں ہے اور وہ بے سر وسامانی کی کیفیت میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے عبدالمجید نے بتایا کہ ان کے چھ بچے ہیں اور افغانستان میں سرد موسم نے ان کے بچوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی ہے۔

محمد یوسف بھی تین روز قبل اپنے گھرانے کے پانچ افراد کے ہمراہ جلال آباد پہنچے ہیں اور اپنا گھر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایک عارضی گھر میں قیام پذیر ہیں۔

حال ہی میں یو این ایچ سی آر نے شدید سرد موسم میں افغان باشندوں کی پاکستان سے بے دخلی پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ افغان شہریوں بشمول رجسٹرڈ مہاجرین اور دیگر درست دستاویزات کے حامل افراد بھی پریشانی سے دو چار ہیں۔

حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تقریبا 17 لاکھ غیر قانونی افغان تارکین وطن مقیم ہیں اور ان سب کو اپنے وطن واپس جانا ہوگا۔

افغانستان میں طالبان کی حکومت بھی کئی بار پاکستان سے افغان شہریوں کی بے دخلی کی پالیسی پر نظر ثانی کا کہتی رہی ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں افغان باشندوں کی بے دخلی افغان طالبان کے لیے تشویش کا سبب بن رہی ہے۔ خاص کر ایک ایسے وقت میں جب طالبان کی حکومت کو تاحال کسی بھی ملک نے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا۔

افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار عبدالوحید خان کہتے ہیں کہ کسی منصوبہ بندی کے بغیر پاکستان سے افغانستان پہنچنےوالوں کی بحالی ایک بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ جو لوگ واپس آر ہے ہیں ان میں سے زیادہ تر ایسے افراد ہیں جو پاکستان میں ہی پیدا ہوئے یا وہیں پلے بڑے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت اپنی استعداد میں بہت کچھ کر رہی ہے مگر حکومت کے وسائل بہت محدود ہیں اور پاکستان سے واپس آنے والوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ رہائش کا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں کے مکانات یا املاک موجود ہیں وہ یا تو بہت خستہ حالت میں ہیں یا پھر ویران پڑے رہنے کے باعث رہائش کے قابل نہیں ۔

عبدالوحید خان کے مطابق پاکستان نے افغان باشندوں کے ساتھ 40 برسوں میں جو اچھا برتاؤ کیا تھا وہ اس زبردستی بے دخلی کے فیصلے نے ملیا میٹ کر دیا ہے۔ کیوں کہ افغانستان پہنچنے والوں میں سے بیشتر پنجاب اور سندھ پولیس کے رویوں کی شکایت کرتے ہیں۔

غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری؛ خاندان کیسے تقسیم ہو رہے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:34 0:00

حکومتِ پاکستان نے جنوری 2024 کے آخر تک 10 لاکھ افغان شہریوں کے انخلا کا ہدف مقرر کیا ہے جب کہ انخلا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے تین نئی بارڈر کراسنگ کھولی گئی ہیں۔

حکومتِ کے اس اقدام پر افغانستان میں طالبان حکومت سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی تنقید کی گئی ہے۔

پاکستان میں اس وقت 40 لاکھ سے زائد افغان باشندے رہائش پذیر ہیں جس میں سے تقریبا 23 لاکھ ایسے ہیں جو پروف آف رجسٹریشن کارڈ یا پھر افغان سٹیزن شپ کارڈ رکھتے ہیں۔

حکومتِ پاکستان کا بارہا کہنا ہے کہ رجسٹرڈ افغان شہریوں کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہیں کی جائے گی لیکن اس کے باوجود یو این ایچ سی آر نے دعویٰ کیا ہے کہ رجسٹرڈ افراد کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی پاکستان میں نمائندہ فلپا کینڈا نے جنیوا میں ایک بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی ملک بدری کی پالیسی کے اعلان کے بعد اور مقامی حکام کی طرف سے غیر ملکی تارکین وطن کی خلاف نا روا سلوک کی وجہ سے افغان مہاجرین میں خوف وہراس پیدا ہو گیا ہے۔

انہوں نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو ایسے کمزر افراد کی نشاندہی کرنی چاہیے جنہیں بین الاقوامی تحفظ حاصل ہے۔

اگرچہ پاکستان کے وزیرِ داخلہ سرفراز بگٹی یہ کہہ چکے ہیں کہ وطن واپس جانے والے افغان شہریوں کے ساتھ نہایت عزت و احترام کے ساتھ پیش آیا جائے اور افغان مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت پر متعلقہ لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے گا۔

تاہم اس کے باوجود اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی تارکینِ وطن شہریوں کی شناخت کے لیے ہونے والے سرچ آپریشن کی وجہ سے قانونی دستاویز کے حامل افغان مہاجرین کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے جمعرات کو یواین ایچ سی آر کے بیان پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یہ واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ پاکستان کی طرف سے اپنے امیگریشن قوانین پر عمل درآمد کرنے کی مہم کا محورپاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد ہیں۔البتہ اس پالیسی کا اطلاق ان مہاجرین پر نہیں ہوگا جن کے پاس قانونی دستاویزات ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG