پاکستان میں حالیہ چند روز سے کرونا کیسز کی تعداد میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ حکومت اسے بہترین حکمتِ عملی کا نتیجہ قرار دے رہی ہے جب کہ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیسٹوں کی تعداد کم ہونے سے کیسز کم رپورٹ ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں بدھ تک مصدقہ کیسز کی تعداد دو لاکھ 37 ہزار 489 جبکہ اموات 4 ہزار 922 تک پہنچ چکی ہیں۔ وائرس سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد وائرس سے متاثرہ مریضوں سے بڑھ گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں کرونا وبا عروج پر ہے اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو چین کی طرح دوسری لہر بھی آ سکتی ہے۔
نیشنل کمانڈ اینڈ کنڑول سینٹر (این سی او سی) کے اعداد و شمار کے مطابق زیر علاج مریضوں کی تعدد 91 ہزار 602 اور صحت یاب ہونے والوں کی مجموعی تعداد 1 لاکھ، 40 ہزار 965 ہے۔
این سی او سی کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں 21 ہزار 951 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے جب کہ جون میں یہ تعداد 32 ہزار تک بھی پہنچ گئی تھی۔
وفاقی وزیر اسد عمر کا دعویٰ ہے کہ کرونا کے حوالے سے حکومت کی حکمت عملی وہی ہے جو پہلے دن تھی، پاکستانی قوم نے ڈسپلن کا مظاہرہ کیا لیکن عیدالفطر پر احتیاط نہ ہونے سے وائرس تیزی سے پھیلا۔
انہوں نے کہا کہ مئی سے اسمارٹ لاک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا تھا جسے جون کے وسط میں مزید پھیلایا گیا اور صوبوں کے لیے 20 شہروں میں 'ہاٹ اسپاٹس' کی نشاندہی کر کے ان علاقوں کو بند کیا گیا۔
اُن کے بقول جون کے وسط کے مقابلے میں آج کے اعداد و شمار بہتر ہیں جس میں نہ صرف وینٹی لیٹرز پر موجود تشویش ناک مریضوں کی تعداد میں کمی آئی بلکہ اموات بھی کم ہوئیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسد عمر نے کہا کہ یہ بہتری اس لیے نظر آ رہی ہے کہ عوام نے حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد کو بہتر کیا ہے اس لیے یہ نہ سوچا جائے کہ بیماری خود بخود کم ہورہی ہے۔
اُن کے بقول دنیا کے کئی ممالک میں دیکھا گیا ہے کہ وبا کی شدت میں کمی آئی لیکن پھر اس میں دوبارہ تیزی سے اضافہ ہوا جس کی ایک مثال امریکہ ہے۔
پاکستان کا صوبہ سندھ اور صوبہ پنجاب اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، صوبہ سندھ میں کیسز 97 ہزار 626 ہیں تو وہیں پنجاب میں 83 ہزار 599 تک کیسز پہنچ چکے ہیں۔ صوبہ خیبرپختونخوا میں 28 ہزار 681 افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں یہ تعداد 10 ہزار 919 ہے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 13 ہزار 650، گلگت بلتستان میں 1595 اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیرمیں 1419 افراد عالمی وبا کا شکار ہو چکے ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے ڈاکٹر ممتاز علی خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس وقت کرونا ہمارے اندازے کے مطابق عروج پر ہے، چین کی طرح پاکستان میں بھی دوسری لہر آنے کا بھی خدشہ ہے۔
ڈاکٹر ممتاز کا کہنا تھا کہ اس وقت سماجی دباؤ کی وجہ سے بہت سے لوگ ٹیسٹ کرانے سے گریزاں ہیں۔
اُن کے بقول اس وقت ہماری ٹیسٹ کرنے کی استعداد 35 ہزار تک ہو گئی ہے اور جون میں اتنی تعداد میں ٹیسٹ کیے گئے لیکن اب لوگ ٹیسٹ کم کرا رہے ہیں۔ یہ بیماری مختلف کمیونٹیز میں پھیل رہی ہے، حکومت کے پاس وہی اعداد و شمار ہیں جو ٹیسٹس کے بعد سامنے آتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ جب کرونا آیا تو ہمارے پاس صرف دو لیبارٹریز تھیں لیکن اب 129 کام کررہی ہیں اور حکومت کے زیرِ انتظام جتنی بھی لیبارٹریز ہیں وہاں مفت ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔ لیکن لوگ خود ٹیسٹ کم کرا رہے ہیں۔
ڈاکٹر ممتاز کا کہنا تھا کہ "ہم اس وقت عید الضحیٰ کی وجہ سے پریشان ہیں کیونکہ اگر رمضان اور عیدالفطر کی طرح احتیاط نہ کی گئی تو وائرس کی دوسری لہر آ سکتی ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
ٹیسٹس کی تعداد میں کمی کے بارے میں پاکستان میڈیکل ایسویسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر شیخ کہتے ہیں کہ ٹیسٹ موجودہ استعداد سے کم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے کم کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بدھ کے اعداد و شمار کے مطابق 21 ہزار ٹیسٹ کیے گئے جن میں سے چار ہزار کے قریب مثبت آئے ہیں۔ اُن کے بقول ہمارا شروع سے مطالبہ تھا کہ ٹیسٹ کی استعداد کار کو ایک لاکھ تک بڑھایا جائے اور ہر صوبے میں 20 سے 25 ہزار ٹیسٹ روزانہ کیے جائیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک ہمیں معلوم نہیں ہو گا کہ ہمارے پاس کتنے کرونا مثبت کیسز آرہے ہیں اس وقت تک ہم حکمت عملی مرتب نہیں کر سکتے۔
ڈاکٹر قیصر کہتے ہیں کہ عیدالاضحیٰ آ رہی ہے 14 اگست، محرم اور ربیع الاول سمیت دیگر اہم تہوار آ رہے ہیں۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وبا ختم ہو رہی ہے لیکن سائنس کہہ رہی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یورپ اور امریکہ میں کیسز ختم ہورہے تھے لیکن وہاں نرمی ہونے سے کیسز کی تعدا د میں اضافہ ہوا، اگر ہمارے ہاں ایسا ہوا تو ہمارا میڈیکل نظام اس بوجھ کو برداشت نہیں کر سکے گا۔
پاکستان میں کرونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری کو سامنے آیا تھا، 31 مارچ تک کیسز کی تعداد دو ہزار، اپریل میں ساڑھے 16 ہزار، مئی میں 71 ہزار، جون میں 2 لاکھ 12 ہزار ہوگئی تھی، تاہم جولائی میں یومیہ کیسز کی تعداد جون اور مئی کے مقابلے میں کم ہے۔