کیا دنیا میں طیاروں کے حادثات بڑھ گئے ہیں؟

فائل فوٹو۔

  • دنیا میں ایک سال کے دروان کے کمرشل طیاروں کی پروازیں چار کروڑ تک پہنچ گئی ہیں۔
  • امریکہ میں ہر سال ڈیڑھ کروڑ سے زائد کمرشل پروازیں مسافروں کو منزل تک پہنچاتی ہیں۔
  • سال 2000 سے 2010 کی ایک دہائی کے دوران ہر سال اوسطاً 13 کمرشل طیارے حادثے کا شکار ہوئے۔

ویب ڈیسک _رواں برس 29 جنوری کو واشنگٹن کے دریائے پوٹومک میں طیارہ گر کر تباہ ہونے کے واقعے نے امریکہ میں ایک بار پھر فضائی سفر کے محفوظ ہونے کی بحث کو جنم دیا ہے۔ اس واقعے میں 67 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ طیاروں کے حادثات میں اضافہ ہورہا ہے جب کہ ڈیٹا اس سے مختلف تصویر دکھاتا ہے۔

ایئربس کمانڈر پیریکو ڈورین 24 سال سے ہوا بازی کی صنعت سے وابستہ ہیں اور وہ سوشل میڈیا پر ایئرسیفٹی سے متعلق اپنی معلومات افزا ویڈیوز کی وجہ سے بہت مقبول بھی ہیں۔

ڈورین کا کہنا ہے کہ فضائی حادثوں میں اضافے کا تاثر اعداد و شمار کے برخلاف ہے۔

ان کے بقول، "واشنگٹن میں ہونے والے حادثے سے قبل ایسا فضائی حادثہ 2013 میں ہوا تھا جس میں اموات بھی ہوئی تھیں۔ 12 سال تک کمرشل ایوی ایشن میں ایک بھی حادثہ نہیں ہوا جن میں آئی اے ٹی اے (انٹرنیشنل ایئرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن) میں شامل کمپنیوں میں سے کسی کا نام آتا ہو۔"

فضائی سفر پہلے سے زیادہ محفوظ

دنیا بھر میں کام کرنے والی ایئرلائنز کی تنظیم انٹرنیشنل ایئرٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے اعداد و شمار کے مطابق فضائی سفر پہلے سے زیادہ محفوظ ہوا ہے۔

تنظیم کے مطابق 2000 سے 2010 کی ایک دہائی کے دوران ہر سال اوسطاً 13 کمرشل طیارے حادثے کا شکار ہوئے۔ جب کہ اس سے اگلی دہائی میں پرازوں کی تعداد تین کرورڑ تک پہنچ گئی لیکن ہر سال ہونے والے حادثات کی اوسط تعداد 9 پر آ گئی۔

سال 2020 کے بعد شروع ہونے والی دہائی میں دنیا بھر میں کمرشل طیاروں کی پروازیں چار کروڑ تک پہنچ گئی جن میں ہرسال حادثات کی شرح 4.4 رہی۔جب کہ 2023 میں ان چار کروڑو پروازوں میں سے صرف ایک پرواز حادثے کا شکار ہوئی۔

ڈورین کا کہنا ہے،’’اگر دنیا میں کسی ایک انڈسٹری نے اپنی سیفٹی بڑھائی ہے تو وہ کمرشل ایوی ایشن کی صنعت ہے۔‘‘

میامی اور فلوریڈا میں ہوا بازی کی تربیت دینے والے گونزالو زولیٹا خاص طور پر امریکہ میں ایئر سیفٹی سے متعلق اعداد و شمار کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن(ایف اے اے) روزانہ 45 ہزار پروازیں ہینڈل کرتی ہے اور اس حساب سے ایک سال میں ان کی مجموعی تعداد ایک کروڑ 60 لاکھ بنتی ہے۔ ان پروازوں میں 30 لاکھ مسافر بحفاظت اپنی منزل پر پہنچتے ہیں۔

SEE ALSO: طیارہ مکمل طور پرالٹ جانے کے بعد 76مسافراور عملہ محفوظ: یہ کوئی معجزہ تھا یا کچھ اور؟

تاہم، ماہرین کے مطابق کمرشل ایوی ایشن اور جنرل ایوی ایشن میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ جنرل ایوی ایشن میں نجی پروازیں اور تفریحی مقاصد وغیرہ کے لیے اڑائے جانے والے چھوٹے طیارے شامل ہیں۔

ماہرین کے بقول زیادہ تر حادثے ایسی نجی پروازوں یا طیاروں کے ساتھ پیش آتے ہیں جو کمرشل ایئرلائنز کے لیے بنائے گئے کڑے حفاظتی ضابطوں کے مطابق کام نہیں کر رہے ہوتے۔

نجی پروازوں یا نان کمرشل فلائٹس کے حادثات کی بات کی جائے تو انہیں ہر سال اوسطاً ایسے 200 حادثات پیش آتے ہیں۔ اس حساب سے لگ بھگ ہر دو دن میں ایسے کسی طیارے کا حادثہ ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا اور عدم تحفظ کا تاثر

فضائی حادثات بڑھنے کا تاثر پھیلانے میں سوشل میڈیا پر ایسے واقعات کی گردش کرتی تصاویر کا بھی اہم کردار ہے اور خاص طور پر موبائل کیمرے عام ہونے کی وجہ سے شاید ہی کوئی حادثہ ایسا ہوتا ہے جس کی تصاویر اور ویڈیوسامنے نہ آجاتی ہو۔

ڈورین کے مطابق نائن الیون حملوں کی بہت کم ہی تصاویر ملتی ہیں کیوں کہ اس وقت ہرکسی کی جیب میں کیمرہ نہیں ہوتا تھا۔ آج ہر حادثہ پانچ یا چھ زاویوں سے ریکارڈ ہوتا ہے اور منٹوں سیکنڈوں میں صاف کوالٹی کی تصاویر وائرل ہوجاتی ہیں۔

ان کے نزدیک سوشل میڈیا پر یہ تصاویر پھیلنے سے یہ تاثر بڑھا ہے کہ فضائی حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے جو دراصل ایک خلافِ واقعہ بات ہے۔

ایوی ایشن انسٹرکٹر گونزالو زولیٹا بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ فضائی حادثات کی کوریج نے فضائی سفر سے متعلق تصور کو بہت تبدیل کیا ہے۔

SEE ALSO: بلیک باکس سے طیارہ حادثے کی تحقیقات میں کیسے مدد ملتی ہے؟

انہوں نے بتایا: ’’سوشل میڈیا نیٹ ورکس ہر چیز کو بڑا کرکے دکھاتے ہیں۔ حال ہی میں کینیڈا کے ایک طیارے کے ساتھ معمولی حادثہ پیش آیا۔ اس میں محفوظ رہنے والے ایک مسافر نے طیارے سے نکلنے کے مناظر ریکارڈ کرلیے جو سوشل میڈیا پر پھیل گئے۔ ان مناظر کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ بہت تباہ کُن حادثہ ہوا ہوگا لیکن درحقیقت اس میں کوئی شخص زخمی بھی نہیں ہوا تھا۔‘‘

دونوں ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا کئی مرتبہ فضائی حادثات کی سنسنی خیز رپورٹنگ کرتا ہے جس کی وجہ سے حقائق مسخ ہوجاتے ہیں اور بعض مرتبہ پروٹوکول میں شامل معمول کے آپریشنز بھی سنسنی کا ایندھن بن جاتے ہیں۔

ڈورین کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی لینڈنگ کو ایوی ایشن میں ضابطے کے مطابق کسی مشکل صورتِ حال سے بچنے کے لیے ایک محفوظ ترین طریقہ قرار دیا جاتا ہے لیکن کئی مرتبہ اسے خطرناک بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول،’’بہت مرتبہ سرخیاں اصل واقعے کی درست عکاسی نہیں کرتیں۔‘‘

ایوی ایشن سفر کا محفوظ ترین ذریعہ

ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کمرشل ایوی ایشن ایک محفوظ ترین ذریعۂ سفر فراہم کرتی ہے۔

ڈورین کے مطابق امریکہ میں ایک کروڑ کمرشل فلائٹس میں سے کسی ایک کے ساتھ ہی حادثہ پیش آتا ہے۔ دنیا میں اس سے محفوظ ذریعۂ سفر اور کیا ہوسکتا ہے۔

ان کے بقول، وقت کے ساتھ ساتھ حفاظتی اقدامات میں اضافہ ہواہے اور حادثات میں ڈرامائی کمی ہوئی ہے۔

گنزالو زولیٹا کا بھی کہنا ہے کہ طیارے پر سوار ہونے کے لیے آپ کے ایئرپورٹ آتے ہوئے حادثے کا شکار ہونے کا امکان جہاز پر سوار ہو کر حادثے سے دوچار ہونے کے امکان سے زیادہ ہے۔