پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا میں کرونا وائرس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ صوبے میں اب تک کرونا سے 104 مریض ہلاک ہو چکے ہیں۔ بعض ماہرین اس کی وجہ صوبے میں صحتِ عامہ کے ناقص نظام اور تربیت یافتہ عملے کی کمی قرار دیتے ہیں۔
چند روز قبل صوبے کے سرکاری اسپتال حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ایک سینئر ڈاکٹر جاوید انور کی ہلاکت اور طبی عملے کے 46 اراکین کے کرونا کا شکار ہونے پر صوبے میں عالمی وبا سے نمٹنے کی صلاحیت پر سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے پشاور کے ايک سینئر ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ خيبر پختونخوا کے اسپتالوں ميں انتہائی نگہداشت (آئی سی یوز) میں تربیت یافتہ عملے کی کمی ہے۔
اُن کے بقول اس کی وجہ صوبے میں متعارف کرایا گیا 'ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ریفارمز ایکٹ' ہے۔ جس کے تحت سینئر ڈاکٹرز کی درجہ بندی میں کئی جونیئر ڈاکٹرز آ گئے ہیں۔ لہذٰا اب صوبے کے بڑے اسپتال جونیئر ڈاکٹرز ہی چلا رہے ہیں۔
مذکورہ ڈاکٹر نے بتایا کہ کرونا وائرس کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک ایل ٹائپ ہے جو بہت زیادہ خطرناک اور اس سے صحت یاب ہونا مشکل ہوتا ہے۔ اور یہ بہت تیزی سے انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔ لہذٰا ہو سکتا ہے کہ صوبے میں اس وائرس سے متاثرہ مریض زیادہ سامنے آئے ہوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے اس بات پر بھی زور ديا کہ لوگوں ميں شعور کی کمی ہے۔ اور وہ مريض کو اسی وقت اسپتال لاتے ہيں جب ان کی بيماری شدید ہو جاتی ہے۔
البتہ بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اموات کی وجہ حکومتی ہدایات پر عمل درآمد نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔
ينگ ڈاکٹرز ايسوسی ايشن کے سربراہ ڈاکٹر جہانگير يوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ حکومت کے غلط اقدامات کے باعث وبا پھیلنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
انہوں نے بتايا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہيں۔
ڈاکٹر جہانگیر کے بقول متواتر بندش کے بعد جب ايک مختصر وقفے کے لیے لوگوں کو اپنی ضروريات پوری کرنے کے لیے آزادی ملے گی تو وہ سماجی فاصلے کے اصولوں کو يکسر بھلا دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وائرس زيادہ تيزی سے پھيل رہا ہے اور لامحالہ اموات بھی بڑھ رہی ہیں۔
ڈاکٹر جہانگير نے مزيد بتايا کہ اب تک صوبے ميں 46 ڈاکٹرز کرونا وائرس کی وجہ سے متاثر ہوئے ہيں۔ جو اس سے پہلے اسپتالوں ميں اپنے روزمرہ فرائض سر انجام دے رہے تھے۔
اُن کا کہنا ہے کہ "اگر ان 46 ڈاکٹرز نے دن ميں فی کس 50 مريضوں کا بھی معائنہ کيا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی وجہ سے سیکڑوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ اور وہ سيکڑوں مريض آگے جا کر مزيد ہزاروں افراد کو متاثر کریں گے جو انتہائی تشويش کی بات ہے۔"
پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق منگل تک ملک بھر ميں کرونا وائرس کے متاثرین کی مجموعی تعداد 14 ہزار سے زائد اور ہلاکتوں کی تعداد 301 ہوگئی ہے۔
وزيراعلٰی خيبر پختونخوا کے مشير برائے اطلاعات اجمل وزير نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صوبے کے تمام اسپتالوں میں صحتِ عامہ کی ہر ممکن سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اُن کے بقول شروع میں صوبے میں ٹیسٹنگ کے وسائل بہت کم تھے۔
لہذٰا صوبائی حکومت نے ٹيسٹنگ کی سہولت کا دائرہ کار بڑھا دیا ہے۔ روزانہ کی بنیادوں پر ایک ہزار سے زائد کرونا ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔
صوبے میں باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہلاکتوں کے سوال پر اجمل وزیر نے بتایا کہ لوگوں میں شعور کی کمی ہے۔ بہت سے لوگوں کو کرونا کی علامات تھیں، لیکن اُنہوں نے چھپایا تاکہ اُنہیں 14 دن تک قرنطینہ میں نہ رہنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ ہلاکتیں بڑھیں۔